تحریر : وکیل سائیں پاکستانی قوم ہر سال 9نومبرکو شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کا یوم ولادت ملی جوش و جذبے سے مناتی ہے اس بار مصور پاکستان کا140واں یوم ولادت منایاجائے گا ان کے مزار پر گارڈز کی تبدیلی کی پر وقار تقریب منعقد ہوگی صدر اور وزیراعظم اس موقع پر اپنے پیغامات میں علامہ اقبال کی خدمات کو سراہیںگے ا ور قوم کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی تا کید بھی کریں گے ۔ شاعر مشرق کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے سرکاری و غیرسرکاری تنظیموں کی طرف سے تقاریب بھی منعقد کی جائیںگی۔ 9نومبر 2016کا سورج بھی کوئی نئی تبدیلی لائے بغیر ڈوب جائے گا لیکن 9نومبر1877کا سورج ایک طرح سے منفرد تھا کیونکہ اس دن دنیا میں ایک ایسی ہستی نے آنکھ کھولی جس نے آگے چل کر مسلمانان ہند کو خواب غفلت سے جگایا اور انہیں غلامی کے اندھیروں سے نکال کر آزادی کی راہ دکھلائی برطانیہ کی یونیورسٹی میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مغرب کے انداز و اطوارنے آپ کوذرہ بھر مرعوب نہ کیاکیونکہ آپ کی رگ رگ میں رب العالمین سے حد درجہ انسیت اور نبی کریمۖ سے بے انتہا عشق بس چکا تھا۔ خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرہنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک ِ مدینہ ونجف
میونخ یونیورسٹی جرمنی سے پی ایچ ڈی کرنے اور یورپ کے دورے کے بعد جب آپ ہندوستان واپس تشریف لائے تو سقوط غرناطہ، بغداد کے المیے اور مسجد قرطبہ میں گزارے ہوئے لمحات نے آپ کوجھنجھوڑ کر رکھ دیا ادھر ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر آپ کا دل مزید کڑھ گیا۔ہندوئو ں کی سازشوں اور انگریز حکمرانوں کی چال بازیوں کو محسو س کرتے ہوئے آپ نے مسلمانانِ ہند کو بیدار کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اپنی لازوال شاعری کے ذریعے انہیں خواب غفلت سے جگایا ۔1930میں خطبہ الہ آباد میں آپ نے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد مسلم ریاست پاکستان کا تصور پیش کرتے ہوئے فرمایا”مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت تمدنی قوت زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کریںمیں صرف ہندوستان میں اسلام کی فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہوں” ۔علامہ اقبال کا یہ مطالبہ بعد میں قرارداد پاکستان کی اساس بنا یہ قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت اور علامہ اقبال کی آفاقی شاعری کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہم آزاد فضا ئوں میں سانس لے رہے ہیں ہمارے اسلاف نے اس پاک وطن کے حصول کے لیے جو قربانیاں دیں ہیںکیا ہمیں ان قربانیوں کا ادراک ہے؟ ان معتبر ہستیوں نے ہمیںاتحاد اور تنظیم کا جودرس دیا ہے کیا ہم نے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی ہے۔
Europe Civilization
ان ہستیوں کی آنکھوں کو فرنگی جلوہ خیرہ نہ کر سکا لیکن ہماری آنکھیں مغربی تہذیب کے گلرنگ نظاروں سے ہٹتی ہی نہیں ۔ ہم نے” خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہا شمی ”، کا سبق بھلا کر مغربی آقائوں کے درپہ ماتھا ٹیکنے کو حکمرانی و کامرانی کا زینہ سمجھ لیا ہے ۔ آخر کب تک چند مفاد پرست عناصر اپنی جھوٹی انا کی تسکین کی خاطر امت مسلمہ کو اغیار کے ہاتھوں گروی رکھتے رہیں گے ؟فرقہ واریت کے نام پر کب تک اپنے ہی لوگوں کا خون بہایاجاتا رہے گا؟ پاکستانی قوم کب تک قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے حقیقی جانشینوں کے انتظار میں سرگرداں رہے گی؟بالا دست کب تک زیر دست طبقوں کا استحصال کرتے رہیں گے اورتاج و تخت کے شیدائی کب تک عوام کا خون چوستے رہیں گے ؟کون ہے جو اس قوم کی ڈوبتی نائو کو سہارادے کر اسے منزل تک پہنچائے یہاں تو سب اپنے اپنے مفادات کے شیش محلوں میں مقید ہیں۔ ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں