تحریر : عثمان غنی اوبامہ کی عوامی حمایت اور اس کے معاونین کیساتھ میری ملاقاتیں، یہ واضح تھا کہ پاکستان میں عوامی اور جمہوری حکومت اس کے ساتھ مل کر افغانستان میں اس کے مقاصد پورے کیے جا سکیں ،جواباً امریکہ کیساتھ جمہوری اور معاشی استحکام کی طرف قدم بڑھائیں جا سکیں ،میں نے یہ پیغام اپنے آقائوں کو اسلام آباد میں پہنچایا اور اوبامہ کی کمپین ٹیم کو بتایا کہ ہم یہ کھیل کھیلنے کو رضا مند ہونگے ،اس کے لیے مگر ہمیں اوبامہ کے بطور صدر عہدہ سنبھالنے کا انتظار کرنا ہو گا ۔طالبان کو شکست دینے کے وسیع تر تعاون کے بدلے ،عام شہری کی امداد کو ریکارڈ کی سطح تک بڑھا دیا گیا تھا ،ٹرمپ بیرونی حکومتوں سے وصولی کر رہا ہے ہمیں ان کے متعلق کوئی آگاہی نہیں مزید براں تعلق جو میں نے اوبامہ کی الیکشن کمپین ٹیم سے اختراع کیا اور ساڑھے تین سال کے قریب پاکستان اور امریکہ دہشت گردی کو شکست دینے میں متحد رہے ،یہ فریضہ میں نے بطور سفیر سر انجام دیا آخر کار ان تعلقات نے امریکہ کو اس قابل بنا دیا کہ وہ نہ صرف اسامہ کا سراغ لگا سکے بلکہ اس کا خاتمہ بھی یقینی بنایا جا سکے۔
بغیر پاکستانی ،سپاہ اور انٹیلی جنس کے اطلاعات پر انحصار کیے ہوئے جس کے بارے میں یہ شبہ تھا کہ وہ اسلامی مسلح جھتوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اوبامہ کی کمپین کے دوران جو میں دوست بنائے یہ کہنے کے قابل تھے کہ بطور نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اراکین تین سال کے عرصے کے بعد سپیشل یو ایس آپریشن اور حساس اداروں کے پاکستانی سر زمین میں اہلکار اتارنے میں مدد فراہم کر سکتے تھے۔میں نے یہ درخواست براہ راست پاکستان کے عوامی اکابرین (سیاستدانوں ) کو پہنچائی جنہوں نے اسے منظور کر لیا تاہم امریکہ نے (ایبٹ آباد )آپریشن کے متعلق قطعاً ہمیں لا علم رکھا ،پاکستان میں موجود امریکی جاسوسوں نے اس متعلق بیش بہا خدمات سر انجام دیں، جب اوبامہ نے پاکستان کے نوٹس میں لائے بغیر نیوی سیل ٹیم چھ میں بھیجنے کا فیصلہ کیا،بد قسمتی سے امریکہ افغانستان میں فتح حاصل نہیں کر سکا۔
پاکستان حکومت کا اسلامی مسلح گروہوں کے بارے میں مستقل بنیادوں پر رویہ بھی تبدیل نہ ہو سکا ۔لیکن میرے بطور سفیر دونوں ملکوں نے اپنے مشترکہ اہداف سفارت کاری کی روح کو سمجھتے ہوئے اکٹھے سرانجام دیئے۔ Kislyakکے حالات حاضرہ کو جانچنے کے بعد، 2008کے آخر میں بطور سفیر اپنی فائلوں اور ڈائرئیوں کو تحقیق کے لیے جانچنا شروع کیا میں نے امریکی انتظامیہ کی تین ٹیموں کے ساتھ اپنے تعلقات قائم رکھے ،سیاستدانوں اور پروفیشنل سٹاف کے ساتھ بش انتظامیہ اور دونوں بڑی پارٹیوں کے امیدواروں کے ساتھ ،میں ریپبلیکن کے سینئر نمائندوں اور جمہوری نیشنل کمیٹیوں کے عہدیداروں سے ایک درجن سے زائد سینئر حضرات ،کانگریس کے لوگوں اور دونوں اطراف کے مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے ملا جو اہم حکومتی عہدوں پر الیکشن کے بعد تعینات ہوئے تھے حالانکہ یہ سب کچھ بطور سفیر معمول کا حصہ تھا ،Kisklyakجس نے کچھ مہینے پہلے اپنی اسناد پیش کی تھیں اس کے بعد غالباً اعلیٰ درجے کے روس ،امریکہ مفادات کو شیئر کیا جن کا میں نے بطور سفیر تین دفعہ ہونے والے امریکہ انتخابات میں جائزہ لیا تھا۔
میں نہیں جانتا اگر وہ اتنی ہی طاقت اور بھرپور حمایت ہیلری کو فراہم کرتا جیسا کہ اس نے ٹرمپ کے لیے کیا غالباً وہ پہلے سے ہی ہیلری کے ٹاپ فارن پالیسی تشکیل دینے والوں کو جانتا تھا اوبامہ انتظامیہ کیساتھ کام کرنے کی وجہ سے ان میں سے بہت سے سفیر یہ سب کچھ کر چکے تھے ۔سفیر کا کام پالیسی تشکیل دینا نہیں ہوتا وہ صرف ملکوں کے درمیا ن افہام و تفہیم کو فروغ دیتے ہیں جو ان کے دار الحکومتوں کو اپنی پالیسی تشکیل دینے میں مدد فراہم کرتی ہے امریکی صدرارتی انتخابات میں مداخلت کا کوئی بھی خفیہ منصوبہ ماسکو میں بنایا گیا ہو یہ ضروری نہیں کہ اس کی آگاہی Kisyakکو ہو ،جیسا کہ پاکستان نے اوبامہ انتظامیہ کیساتھ اسلام آباد میں وعدہ کی خلاف ورزیاں کیں لیکن یہ سب میری ایمبسی میں نہیں ہو ا،روس نے کیسے سیاسی طور پر اپنے خفیہ ہتھیار (Kompromat)سے سیاسی مخالفین کو پچھاڑا اس کے لیے حقائق کی پڑتال کی ضرورت نہیں، نومبر 2011میں جب پاکستانی ملٹری انٹیلی جنس نے ملک کی گزشتہ عرصے کی جدوجہد کو اپنے پائوں تلے کر لیا تو مجھے سفارت کاری سے مستعفیٰ ہونے پر مجبور کیا گیا، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو مجھ سے یہ شکوہ تھا کہ میں نے بڑی تعداد میں سی آئی اے کے اہلکاروں کو” مدد” فراہم کی جنہوں نے پاکستانی سپاہ کے دھیان گیان کے بغیر کھوچ لگا لیاتھا ۔تاہم یہ فرائض منصبی میں نے اس وقت کے پاکستانی منتخب شدہ سیاستدانوں کے زیر سایہ سر انجام دیئے۔
پاکستان کے بر عکس روس یقینا امریکہ کیساتھ تعلقات میں اونچ نیچ کا شکار ہے اور Kislyakکے نزدیک یہ سب چیزیں مختلف نہیں جس کو ہر ملک کا ہر سفیرا ستعمال کرنے کی امید رکھتا ہے بے شک اس کا انجام منفرد ہی کیوں نہ ہو ا،مریکہ کے یہ پڑتال کرنے کے مفادات قانونی ہیں کہ آئے روس نے خفیہ طور پر امریکی سیاست میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی یا نہیں، تفتیشی افسر شاید اپنے سفارتی تعلقات کے متعلق دروغ گوئی سے کام لے رہیں یہ نہیں ہونا چاہیے تاہم یہ تاثر کہ فارن سفیر کے ساتھ مصروفیت و مشغولیت ،او ر وہ بھی ایسا ملک جس کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوں اور لوگ جنہوں نے مستقبل قریب میں موروثی طور پر اہم عہدوں پر تعینات ہوناہے بد شگونی کے سوا کچھ نہیں، یہ مفاہمت ضروری ہے اگر نئے صدر ٹرمپ اپنی فارن پالیسی کے منصوبوںکی جانچ پڑتال کر کے حقیقت کے روپ میں سامنے لائیں۔