تحریر : محمداعظم عظیم اعظم آج جہاں میں جتنے بھی اِنسان بستے ہیں سب ہی میں کوئی نہ کوئی خامی ضرور ہے ایسا تو کوئی بھی اِنسان نہیں ہے کہ جس میں سب ہی اچھائیاں ہوں اور برائی ایک نہ ہواور ایسا بھی کوئی نہیں ہوگاکہ جس میں سب ہی برائیاں ہوں اور ایک بھی اچھائی نہ ہو، یعنی کہ ہر زمانے کے ہر معاشرے کی ہر تہذیب میں ایسے انسان گزرے ہیں جن کی ذات اچھائی اور برائی کا مجموعہ رہی ہے دنیا کی تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ہر ازل سے زمینِ خداپر آنے والے زمانے ایسے ہی اِنسانوں کے ساتھ گزر گئے ہیں اور آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے زمانے اپنے اندر بہت سے انسانوں اور اقوام کو ان کی تعمیری اور مثبت سوچوں اور کارناموں کی وجہ سے امر کرتے اور بہت سوں کو اِن کے کرتوتوں کی وجہ سے نشان عبرت بناتے گزررہے ہیں۔
اَب یہ اور بات ہے کہ آج اپنے اندر بے شماربُرائیوں کا مجموعہ رکھنے والااِنسان خود کو دوسروں کے عیبوں کو ڈھونڈنے میں لگارہتاہے اوراپنے سامنے والے کی ذات کو کرد کرد کر ایسے ایسے عیب نکال لیتاہے کہ ہر کوئی حیرن رہ جاتاہے اور یوں جب عیبوں کی گٹھڑی اُٹھائے ایک اِنسان دوسرے اِنسان کے عیبوںکی جانب اپنی ایک انگلی سے اشارے کرتاہے تو وہ یہ کیوں بھول جاتاہے…؟؟ کہ اُس کے اُسی ہاتھ کی تین انگلیاںخود اُس کے عیبوں کی طرف بھی اشارہ کررہی ہوتی ہیں الغرض یہ کہ اِنسان کوکسی دوسرے کے عیبوں کو گنوانے سے پہلے اپنے اندرموجود عیبوں کو بھی تلاش کرلینا چاہئے جس کی وجہ سے خود اُس کی ذات میں بھی سوچ ہوتے ہیں مگر جو اسے دِکھائی نہیں دیتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کے لئے بس یہی کہیں گے کہ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا طریقہ سیکھوورنہ…!!
Faults
کہیں دوسروں کے عیبوں کو گنواتے گنواتے خودہی اپنے عیبوں کے دلدل میں ایسے نہ دھنس جاو ¿ کہ جب تمہیں کوئی نکالنے والابھی نہ ہوگا…تب تم جنتا نکلنا چاہو گے .. معاشرے والے تمہیں اُتناہی دلدل میں دھکیلتے چلے جائیں گے کیوں کہ تمہارے اپنے اعمال ایسے ہیں کہ تمہارامقدریہ دلدل ہی ہوناچاہئے۔ اَب ایسے لوگوں کویہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ مجھ سمیت سب ہی کے تو دامن داغدار ہیں کوئی ایک بھی بچاہوا نہیں ہے۔ بہرحال.. آج ہر اِنسان اپنے اندر موجود معمولی برائی کو معمولی سمجھ کر نظراندازکرنے کا سلسلہ ترک کردے کیوں کہ آگے چل کر یہی معمولی بُرائی اتنی غیرمعمولی بن جاتی ہے کہ اِسے مٹانامشکل ہوجاتاہے
سو ہر اِنسان کو ہر وقت اور ہر لمحے اپنے عیبوں کا احتساب کرتے رہناچاہئے اور خود کو اُس پیمانے پر لانے کی سعی ضرورکرنی چاہئے جس پر ایک کامل اِنسان ہوتاہے ۔ہائیں…!! آج یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہر زمانے کے ہر معاشرے اور ہرتہذیب کی طرح ہمارے مُلک اور معاشرے میں بھی ہمارے اردگردرہنے والے خاص وعام ، گاو ،اعلی و اوسط درجے سے بھی کم کے گھامڑاِنسانوںنے اپنے اندر تمام اخلاقی وسماجی اور سیاسی گند رہنے کے باوجود بھی ایک دوسرے کے عیبوں کی تلاش میں تباہ وبرباد کر دیاہے۔ جدھر دیکھو…!! ہر اِنسان دوسرے اِنسان کی عیب جوئی اور کرپشن میں لگاپڑاہے اپنے اِس فعلِ شنیع سے کسی کو کوئی سروکار نہیں کہ اِس کے اِس عمل سے خود اِس کی اپنی ذات کا کتنا نقصان ہو رہا ہے، اور زندگی کے
Afterlife
جن لمحات میں اِسے اپنی آخروی زندگی کے لئے اعمال صالح جمع کرنا چاہئے تھے اُن لمحات میں یہ دوسروں کے عیب اور کرپشن کرکے اپنی آخرت کی زندگی کو جہنم کا ایندھن بنانے کے سامان کررہاہے اوریہ اِس طرح دنیامیں اپناقیمتی وقت ضیاع کرکے خود کو زندہ رکھ کرمُلک و قوم کاجو نقصان کررہاہے وہ الگ ایک مسئلہ ہے اَب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے لوگوں کی اخلاقی، سماجی اور سیاسی اصلاح کرنی چاہئے…؟؟ یا اِنہیں جہنم کا ایندھن بنے کے لئے اِن کے حال پرہی چھوڑ دینا چاہئے ..؟؟ توایسے میں بہت سے دردمندوں کا جواب یہ آئے گا کہ نہیں… ایسے بداخلاق اور اخلاق سے عاری مظوم لوگوں کی اصلاح کرنے کی ذمہ داری معاشرے میں موجود اُن اعمالِ صالح کا درس دینے والوں کو ضرورسنبھال لینی چاہئے جو اللہ اور اُس کے رسول اور قرآن و حدیث کے مطابق اپنی زندگیاں گزاررہے ہیں…اوراپنی دنیاوی اور آخروی زندگیوں کو گل وگلزاربنارہے
اور اپنے اعمالِ صالح سے جنت کے حقدارٹھیرائے جارہے ہیں ایسے اللہ کے نیک بندوں کو آگے بڑھ کر اپنے معاشرے کے اُن اِنسانوں کی ضرورمددکرنی چاہئے آج جو ابھی تک بھٹکے ہوئے ہیں اوراپنی اِسی حالات کو درست جان کر ہر قسم کی اخلاقی و سماجی اور سیاسی کرپشن میں مصروف ہیں اورجو دوسروںکی عیب جوئی کرتے ہیں اور یوں وہ ا پنی دنیا اور آخرت تباہ کر بیٹھتے ہیں۔ آج …اگرہمیں اپنے مُلک اور معاشرے سے کرپشن کے ناسورسمیت اُن تمام عیبوں اور بُرائیوں کوختم کرناہے تو بس ضرورت اِس امر کی ہے کہ اُوپر سے نیچے تک سب کو اپنی اصلاح کرنی ہوگی کسی کو کسی کی طرف اپنی ایک انگلی اُٹھانے سے پہلے اوراپنے اُس اخلاقی و سماجی اور سیاسی گندگی اور غلاظت سے بھرے گریبان میں بھی ضرور جھانکنا ہو گا جو خود اپنے اندر منوں گندگی چھپائے ہوئے ہے یوں ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں، عسکری قیادت اور قومی اداروں کے سربراہان سمیت عوام کو بھی ہر سطح پراپنا احتساب خود سے کرنا ہوگانہ صرف یہ کرناہوگابلکہ اُس سے حاصل ہونے والے دائمی نتیجے پر بھی عمل کرنا ہوگا جس سے کرپشن اور بہت سی ایسی بُرائیوںسے بچاجائے جن کی وجہ سے ہم اخلاقی و سماجی اور سیاسی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوئے اور دنیامیںوہ مقام حاصل نہ کرسکے جو ہمیں حاصل کرنا چاہئے تھا۔