۔،۔آتشِ انتقام ۔،۔

Raheel Sharif

Raheel Sharif

تحریر: طارق حسین بٹ شان
جنرل راحیل شریف نے اپنے آہنی عزم سے پاکستانی سیاست پر سحر طاری کیا ہوا ہے۔حکومتی فیصلے جنرل راحیل شریف کی مرضی اور منشاء کے بغیر ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ حکومت اس وقت عملا جنرل راحیل شریف کی مٹھی میں بند ہے کیونکہ جنرل راحیل شریف کا خلوص اورنیک نیتی پاکستانی عوام کے دلوں میں جا گزین ہو چکی ہے۔وہ اس وقت پاکستان کی مقبول ترین شخصیت ہیں ۔اس بات کا ادراک حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ہے ۔ ٦ ستمبر کو جنرل ہیڈ کوارٹر میں ان کی تقریر کسی للکار سے کم نہیں تھی۔پاکستانی قیادت ان کے سامنے تھی اور مسلمانوں کا قاتل نریندر مودی ان کی شمشیر کی زد میں تھا۔انھوں نے اسے جس طرح للکارا اسے برسوں یاد رکھا جائے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک فوجی ہیں اور سیاست کی نزاکتوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے لہذا وہ جب بھی بات کرتے ہیں بالکل دوٹوک اور سیدھی کرتے ہیں اور پاکستانی عوام ان سے اسی طرح کی امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کو للکارنا کوئی معمولی بات نہیں ہے لیکن جنرل راحیل شریف نے اسے جس جرات مندی سے للکار اہے اس نے بھارت کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ رہی سہی کسر میاں محمد نواز شریف کے اقوامِ متحدہ میںخطاب نے پوری کر دی ہے۔یہ ایک بڑا ہی متوازن خطاب تھا جس میں جنرل راحیل شریف والی گن گرج تو نہیں تھی لیکن اس میں مدبرانہ رنگ کافی گہرا تھا جس نے اس وقت بھارت کو آگ بگولہ کررکھا ہے۔

بھارتی ہاتھوں سے قتل ہونے والے مظفر وانی شہید کا ذکر اقوامِ متحدہ میں کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جسے بھارت کے لئے نظر انداز کرناممکن نہیں ہے ۔سری لنکا،بھوٹان،سکم ،مالدیپ،بنگلہ دیش اور افغانستان کو اپنے اشاروں پر نچوانے والے بھارت کے لئے میاں محمد نواز شریف کا خطاب اور جنرل راحیل شریف کی للکاراس کی اس خطے میں بالا دستی کے خلاف کھلی بغاوت ہے جسے بھارت کے لئے آسانی سے برداشت کرنا ممکن نہیں ہے۔بھارت ہر ایسی آواز کو جو اس کی بالا دستی کے خلاف اٹھے برداشت نہیں کر سکتا۔امریکہ کی سر پرستی ہو،یورپ کا کندھا ہو اور اسرائیل کی ہلہ شیری ہو اور پھر پاکستانی فوج اور حکومت بھارت کو آنکھیں دکھائے اس کے لئے مر مٹنے کا مقام ہے بھارت بزعمِ خویش خود کو جنوبی ایشیا کا چوہدری سمجھ رہا ہے لیکن جنر ل راحیل شریف نے اپنے خطاب میں اس کی جس طرح سے دھوتی اتاری ہے وہ اس سے انتقام کی آگ میں جل رہا ہے۔امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لئے چین اس وقت دردِ سر بنا ہوا ہے۔ کچھ بھی ہو جائے امریکہ اس پاک چین راہداری کو مکمل نہیں ہونے دینا چاہتا جس میں پاکستان اور چین کی ترقی کے امکانات مضمر ہیں۔امریکہ بھارت کو جنگ کے لئے اکسا رہا ہے۔

Indian Army

Indian Army

افغانستان اور خطے کے دوسرے ممالک بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں۔وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ بھارت جنگی مہارت، فوجی طاقت،سازو سامان اور اسلحہ بارود میں پاکستان سے کئی گنا بڑا ہے لہذا جنگ میں بھارتی جیت یقینی ہے۔وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پچھلی ساری جنگوں میں بھارت پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا حالانکہ وہ اس وقت بھی پاکستان سے چھ گنا بڑا ملک تھا ۔ البتہ ایک جنگ ایسی تھی جس میں بنگلہ دیش نے پاکستان سے بغاوت کر دی تھی اور بنگالیوں کی مدد کو پہنچنے والا بھارت اس جنگ میں فتح یاب ہوا تھا۔وہ بھارت کی نہیں بنگلہ دیش کی جنگ تھی اور اسے بنگالیوں نے بھارت کے ساتھ مل کر لڑا تھا لیکن اب تو ایسی کوئی صورتِ حال نہیں ہے۔اب تو پورا ملک پاک فوج کے شانہ سے شانہ جوڑے کھڑا ہے اور بھارت کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کیلئے بے چین ہے۔پاکستانیوں کی للکار سے بھارت بھی خوف زدہ ہے کیونکہ اس نے عوامی للکار اور جذبوں کا عمل مظاہرہ اپنی کھلی آنکھوں سے ستمبر ١٩٦٥ کی جنگ میں دیکھا ہوا ہے۔اسے علم ہے کہ یہ اپنے جسموں پر بم باندھ کر دشمن پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اسے نیست و نابود کر دیتے ہیں۔مذہب کی طاقت یہی سکھاتی ہے کہ جب وطن کوجان کی ضرورت پڑے تو اس وقت جان وطن کی نذر کردو کیونکہ دین اپنے پیرو کاروں سے اسی طرح کے ردِ عمل کا تقاضہ کرتا ہے۔،۔

بھارتی میڈیا اس وقت جنگی جنون میں مبتلا ہے۔وہ نریندر مودی کو جنگ پر اکسا رہا ہے۔اس کی خواہش ہے کہ ایک دفعہ پاکستان کو سبق سکھانے کی اس کی حسرت پوری ہو جائے لیکن نریندر مودی کو علم ہے کہ اس کا کس قوم سے پالاپڑا ہوا ہے۔وہ جو کچھ دیکھ رہا ہے میڈیا اسے دیکھنے سے قاصر ہے۔ایک طرف کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد اٹھنے والا طوفان ہے اور دوسری طرف دھشت گردی کی جنگ سے کندن بن کر نکلنے والی پاک فوج ہے جس کے جوانوں کے حو صلے اس وقت اپنی انتہائوں کو چھو رہے ہیں۔جنرل راحیل شریف کی قیادت نے پاک فوج کے جوانوں کو ایسے نڈر شیروں میں بدل دیا ہے جو کسی بھی معرکے کو سر کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ہندو بڑھکیں تو مار سکتا ہے لیکن جان کی بازی لگانا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔سکھوں کو ہندوئوں نے پاکستان کے خلاف صف آرا کیا ہوا تھا لیکن خالصتان کے حالیہ مطالبے نے بھارتی فوج میںبھی دراڑیں ڈال رکھی ہیں ۔ان کے لئے جرنیل سنگھ بھنڈرانو الہ کے لہو کوبھول جانا ممکن نہیں ہے۔ وہ اب بھی جرنیل سنگھ بھنڈرا نوالہ کوایک ایسے ہیرو کے روپ میں دیکھ رہے ہیں جو ان کے لئے خالصتان کا خواب پوارا کر سکتا تھا ۔وہ اب بھی ہر سکھ کے دل میں تقدس کی صورت میں جا گزین ہے لہذا سکھوں کا بھارت کیلئے دل و جان سے لڑنا سوالیہ نشان کی صورت میں موجود ہے۔

War

War

فوجیں جنگ نہیں جیتتں بلکہ یہ عوام کی پشت پناہی ہوتی ہے جو جنگ جیتنے میں اہم عنصر کی حامل ہوتی ہے۔پاکستان قوم باہمی اختلافات کے باوجود بھارت کے خلاف یک زبان ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔کسی گلی میں چلے جائیں کسی محلے میں نکل جائیں بھارت کے خلاف عوام کے نعروں کو سنا جا سکتاہے۔گود میں کھیلنے والے بچے بھی بھارت مردہ باد کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں ۔ہماری مائوں نے ہمارے اندربھارت کے خلاف جس طرح کے جذبوں کو بیدار کیا ہوا ہے پوری قوم ان نعروں کی گرفت میں ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عوام بھارت سے اتنی شدید نفرت کرتے ہیں؟بات بالکل سادہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کو کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کوشش کی کہ یہ نوزائیدہ ملک اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہو سکے اور یوں اکھنڈ بھارت کا خواب حقیقت کا جامہ پہن لے۔یہ تو ہمارے قائدین کی بالغ نظری اور دور اندیشی کا کمال تھا کہ وسائل نہ ہونے کے باوجود بھی ہم اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب ہو گئے ۔بھارت کو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ پاکستان کم وسائل کے باوجود اسے آنکھیں دکھا تا ہے اور اس کی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرتا۔ستمبر ١٩٦٥ میں پاکستان کو اسلحہ کی کمی کا سامنا تھا۔

اس کے پاس ٹینک اور توپیں نہیں تھیں،اس کی ائیر فورس قلیل تھی،اس کے پاس میزائل اور طیارہ شکن توپیں ناقص تھیں لیکن اس کے باوجود بھی پاک فوج نے پنے سے چھ گنا بڑی فوج کو ناکوں چنے چبوائے۔وہ ملک جو فتح کا جشن منانے کی تیاریاں کر ہا تھا اس کے سینکروں ٹینک پاک فوج کے جانبازوں کی جانبازی سے ریت کا ڈھیرثا بت ہوئے ۔یہ وہی قوم ہے یہ وہی فوج ہے جو ستمبر ١٩٦٥ میں تھی۔اس وقت ہمیں اسلحے کی کمی کا سامنا تھا لیکن اس وقت ہماری فوج جدید تریں اسلحے سے لیس ہے۔اس کی استعداد اور تعداد ماضی سے زیادہ ہے لہذا بھارت کو سوچنا ہو گا کہ وہ کس قوم سے بازو آزمانے جا رہا ہے۔پاکستانی فوج تو قربانیوں کی ایک طویل داستان رکھتی ہے۔اس کیلئے شہادت ایک خواب ،تمنا اور آرزو کا نام ہے۔وہ جنگ محض جنگ سمجھ کر نہیں لڑتی بلکہ وہ جنگ ایک مشن اور مقدس فرض سمجھ کر لڑ تی ہے۔مجھے نہیں معلوم کی بھاری وزیرِ اعظم نریندر مودی جنگ کا فیصلہ کرتے ہیں کہ نہیں لیکن مجھے اتنا یقین ضرور ہے کہ اگر اس نے جنگ کا فیصلہ کیا تو یہ بھارت کیلئے تباہ کن ہو گا۔وہ اقلیتیں جھنیں ہندو نے صدیوں سے دبا کر رکھا ہوا ہے اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں گی اور یوں بھارت کے منتشر ہونے کے امکانات پیدا ہو جائیں گئے لہذا جنگی بگل بجانے سے قبل بھارت کو سو دفعہ سوچنا چائیے کہ وہ کس راہ کا انتخاب کرے؟ امن کی راہ بھارت کو بلندیوں سے ہمکنار کر سکتی ہے جبکہ جنگی حکمتِ عملی بھارت کے حصے بخرے کر سکتی ہے ۔فیصلہ بہر حال نریندر مودی کو کرنا ہے۔

Tariq Butt

Tariq Butt

تحریر : طارق حسین بٹ شان
چیرمین پیپلز ادبی فورم