تحریر : جاوید صدیقی 27 دسمبر 2007 کو سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو باغ جناح گراؤنڈ راولپنڈی کے ایک جلسے میں فائرنگ کرکے شہید کردیا، اُس وقت سابق صدر پرویز مشرف برسراقتدار تھے اور انھوں نے بینظیر بھٹو کو آگاہ کردیا تھا کہ حالات نا مناسب ہیں اور آپ کی جان کو خطرہ بھی ہے۔۔ ، ایجنسیوں کی جانب سے بھی بینظیر بھٹوکو ان کے خلاف حملہ کی اطلاع کردی گئی تھی اور انہیں محدود و محفوظ رہنے کیلئے تاکید کی گئی تھی لیکن بینظیر بھٹو نے سابق صدر اور ایجنسیوں کی جانب سے اطلاعات پر کان نہ دھرے اور جوش جذبات میں آکر مخالفین دشمن کو مکمل موقع دیا، بینظیر بھٹو کی آمد پر کارساز کے مقام پر پہلا حملہ ہوا جس میں وہ بال بال بچ گئیں ،انھیں پھر اپنے حفاظت کیلئے حکومتی سطح پر اور ایجنسیوں کی جانب سے مطلع کیا گیا کہ آپ ٹارگٹ پر ہیں احتیاط برتیں لیکن کارساز حملہ کے باوجود بینظیر بھٹو نے فیصلہ کیا کہ چاہے جان چلی جائے وہ راولپنڈی جناح گراؤنڈ میں عوامی جلسے سے ضرور خطاب کریں گی، پوری میڈیا یہ جلسہ براہ راست نشر کررہی تھی اور عوام نے بھی دیکھا کہ جلسہ کے خطاب کے بعد بینظیر بھٹو بم پروف بکتر بند گاڑی میں بیٹھ گئیں تھیں پھر دوبارہ باہر نکل کر عوام کو ہاتھ ہلا ہلا کر دادوصول کر رہی تھیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا کہ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد کیوں باہر سرنکالا؟؟؟ کس کے کہنے پر ایسا کیا؟؟؟ جب جانتی تھیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے پھر کیوں موقع دیا؟؟؟ کس کو ان کی شہادت پر سب سے زیادہ فائدہ ہونا تھا؟؟؟ کس کے ہاتھوں پارٹی کی کمان آنی تھی؟؟؟کئی سوالات اٹھے لیکن کسی نے بھی جواب نہ دیا،اس معاملے پر آصف علی زرداری کی کابینہ اور وزرانے براہ راست اُس وقت کے صدر پرویز مشرف کو مورد الزام ٹھہرایا لیکن پھر خود ہی انہیں با اعزت اعزازات کیساتھ رخصت کیا!! معزز قائرین! بینظیر کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری وہ پہلے پانچ سالہ دور کے صدر گزرے ہیں جنھوں نے مصالحت کے گزرے اپنے مخالفین کو ساتھ لیا اور اپنا ٹرن مکمل کیا،زرداری نے بھرپور اختیارات کیساتھ حکومت کی لیکن افسوس کہ پاکستان کے خزانے کو ناتلافی نقصان پہنچایا،ان کے وزرا نے کرپشن، لوٹ مار،بد عنوانی کی نئی رقم تایخ کردی ان کی دیکھا دیکھی آج کی نواز حکومت نے بھی دو ہاتھ مزید بڑھا دیئے۔۔۔۔۔!! معزز قائرین ! میں اپنے موضوع کی جانب بڑھتا ہوں۔
27دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کس طرح ایک پلان کے تحت ملک بھر میں طوفان برپا کیا گیا ، کس طرح یکدم دہشت گردی اور خوف حراس کی فضا قائم کی گئی، کس طرح افواج پاکستان اور ریاست کے دیگر اداروں کو بآور کرایا گیا کہ ہم کس حد تک جاسکتے ہیں ، کس پلاننگ کیساتھ بینظیر بھٹو کی شہادت سے لیکر سرکاری املاک کو تباہ و برباد کردینا یہ سب کچھ پی پی پی کےاہم ترین ذمہ داران کی جانب پہلے ہی طے کرلیا گیا تھا کیونکہ قائد ملت خان لیاقت علی خان کا بھی اسی جگہ شہادت ہوئی تھی ان کیلئے تو ایک بھی سائیکل تک نہیں توڑی گئی کیونکہ وہ پاکستان بنانے والے تھے پاکستان توڑنے یا بلیک میلنگ کرنے والے نہیں ۔۔۔!! بہت معصوم اور سیدھے سادھے ہیں ہمارے انویسٹی گیٹر رپورٹر، اینکر اور ایڈیٹر جو اپنے فرائض منصبی پر کہیں کہیں خاموش رہتے ہیں شائد ان کے نزدیک خاموشی ہی بہتر ہو لیکن یہ عمل نہ صرف ملک کیساتھ نا انصافی پر مبنی ہے بلکہ عوام کیساتھ بد ترین دھوکہ کے مترادف ہوگا ایسا یہ کہا جائے کہ آئین اور قانون کی خلاف ورزی تو خلط نہ ہوگا کیونکہ ملک کی سالمیت، بقا و سلامتی سب سے اول ہے لیکن حیرت ہے کہ ہمارے اینکر، ایڈیٹر، انویسٹی گیٹر رپورٹر اور انویسٹی گیٹرایڈیٹر قلم اٹھانے کو تیار نہیں۔
Media
آج تک بین الاقومی اور بلخصوص پاکستان کی تمام میڈیا، اخبارات، و جرائد نے بینظیر بھٹو کی شہادت پر گڈھی خدا بخش کی رسومات و تقریبات تو دکھا دیتے ہیں مگر اس بڑے سانحہ پر کھل کر بات کرنے یا لکھنے پر تیار نہیں ہوتے آخر کیوں ؟؟ کس بات کا پردہ ہے؟؟ کس بات کا خوف ہے؟ ؟؟ میں اپنے قائرین کو اُس وقت کے حالات سےایک بار ضرورآگاہ کرنا چاہتا ہوں تاکہ ان کی یادداشت تازہ ہوسکے ۔۔!! سابق وزيراعظم اور پاکستان پيپلز پارٹی کی چيئرپرسن بے نظير بھٹو کی بم دھماکے ميں جاں بحق ہونے کی اطلاع کے بعد ملک بھر ميں ہنگامے گھيراؤ جلاؤ اور تشدد کا سلسلہ شروع ہوگيا ،کراچی ميں تمام بازاربند کرادیئے گئے،دکانيں بند ہوگئيں،بازاروں ميں اندھيرا چھاگيا اور پورے شہر ميں خوف و دہشت کی فضا چھا گئی شہر بھر ميں جلاؤ گھيراؤ کے دوران اسی سے زائد گاڑياں نذر آتش کی گئيں لياری ٬ کھارا در ٬ سلاوٹ پاڑے ٬ گورو مندر ٬ کلفٹن ٬ ڈيفنس ٬ گلشن حديد اور گلش اقبال سميت ديگر کئی علاقوں ميں ہوائی فائرنگ کی گئی۔
مشتعل لوگ کے ہجوم سڑکوں پر ديوانہ وار نعرے لگاتے رہے اور انہوں نے پتھراؤ اور ڻٹائروں کو آگ لگائی لياری ميں خواتين نے بھی سڑکوں پر نکل کر سينہ کوبی اور بين کئے مشتعل افراد سرکاری املاک اور گاڑيوں پر پتھراؤ کرتے رہے گاڑيوں کو نذر آتش کيا گيا۔۔خير پورمیرس ميں مشتعل مظاہرين اور پوليس کی فائرنگ سے تين افراد ہلاک ہوئے، سندھ ميں پنجاب سے جانے والی دو مسافر ڻ ٹرينوں کومکمل طور پر نذر آتش کرديا گيا ، جلاؤ گھيراؤ کے دوران سينکڑوں گاڑياں نذر آتش کردی گئیں جبکہ سندھ بھر کے مختلف شہروں کے ریلوے اسٹیشن جلا کر خاکستر کردیئے گئےاور مختلف شہروں ميں (ق) ليگ کے دفاتر اور سرکاری املاک جلا ديئے ،جیالوں کی فائرنگ سے کئی لوگ ہلاک ہوئے، سرکاری عمارات گورنرز اور وزيراعلیٰ ہاؤس سميت اہم عمارات پر رينجرز اور سکيورٹی فورسز تعينات کردی گئيں۔۔۔۔ سکھر ميں ہنگامہ آرائی کے دو ران واپڈا کا دفتر اور متعدد گاڑياں جلا دی گئيں۔
شہر ميں چار سرکاری عمارتوں سميت بيس سے زائد گاڑيوں کو نذر آتش کرديا گيا ۔۔۔۔ جيکب آباد ميں نگران وزيراعظم محمد مياں سومرو کے رشتہ دارں کی املاک کو آگ لگا دی گئی جبکہ ٹيلی فون ايکسچينج پر مشتعل افراد نے ہلہ بول کر شديد توڑ پھوڑ کی ، پشاور سے کراچی جانے والی خوشحال ايکسپريس کو نوڈیرو کے قريب نذر آتش جبکہ ڻٹنڈو الله يار کے قريب شاھ عبدا لطيف ايکسپريس کو آگ لگائی گئی۔۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سميت شکر گڑھ، ٬ فیصل آباد، ٬ سرگودھا، رحيم يار خان ،اٹک ،سرگودھا سميت ديگر کئی شہروں ميں احتجاج ہنگامہ آرائی اور فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔۔۔، پنجاب کے تمام بڑے شہروں ميں بے نظير بھٹو کی ہلاکت کی خبر سنتے ہی تقريباً کاروباری مارکيٹيں بند کردی گئيں ، کئی ایک شہروں ميں (ق) ليگ کے اليکشن آفس ٬ضلعی ناظمين کے دفاتر کو جلا دیا گيا ،موبائل فون کے دفاتر ٬ پٹرول پمپوں اور مسافروں گاڑيوں کو بھی نذر آتش کرديا گيا، سرگودھا ميں مسلم ليگ (ق)کے اس پنڈال کو آگ لگادی گئی جہاں مسلم ليگ کا جلسہ عام ہونا تھا اس کے علاوہ سینکڑوں مشتعل افراد نے کرسيوں ٬ بينروں ٬ اسٹيج پوسٹروں اور ق ليگ کے تین انتخابی دفاتر کوبھی جلا ڈالا۔۔۔، لاہور ميں پوليس کی دو گاڑيوں کو نذر آتش جبکہ تين پوليس اہلکاروں سميت ايک گاڑی کو اغواء کرليا گيا بعد ازاں مشتعل افراد نے پوليس اہلکاروں کو تشدد کے بعد رہا کرديا، لاہور ميں ہی پٹرول پمپ موبائل فون کے دفاتر اور ايک ويگن سميت ايک گھر کو بھی آگ لگادی گئی ، شہر کے مختلف مقامات پر ڻٹائر جلا کر آگ جبکہ شادباغ اور شملہ پہاڑی کے نزديک ہوائی فائرنگ مال روڈ شام ہوتے ہی سنسان ہوگئی، شاہی قلعہ کے عقب ميں فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق ہوگيا۔
Bus Fire
لاہور ميں مشتعل نوجوانوں نے ڻٹائر جلا کر ٹريفک بلا ک کردی ،ٹيلی فون اور بجلی کی تاروں کو آگ لگا دی ،مختلف مارکيٹوں ميں زبردستی توڑ پھوڑ کر کرکے دکانيں بند کراديں۔۔۔۔ شکر گڑھ ميں مشتعل افراد نے تمام کاروباری مراکز بند کرديئے اور شہر بھر ميں تشدد کے واقعات رونما ہوئے ۔۔۔۔گوجرانوالہ ميں دکانوں کی توڑ پھوڑ کی گئی ۔۔۔۔۔ساہیوال ميں بینظير بھٹو کی ہلاکت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھيل گئی، فرید ڻٹاؤن ٬ سوہنی گلی ٬ صدر بازار ميں ہنگامے اور فائرنگ کے واقعات ہوئے ، عارف والا روڈ پر ٹائروں کو آگ لگا کرٹریفک بند کردی گئی۔۔۔۔۔ پاک پتن چوک ميں مشتعل کارکنوں نے مظاہرہ کيا تمام بازار بند کردیئے۔۔۔۔۔۔۔ چيچہ وطنی ميں پیلس چوک ٬ اور بورا چوک ميں مظاہرے اور فائرنگ کے واقعات ہوئے۔۔۔۔۔۔ ضلع ساہيوال ميں مکمل ہڑتال رہی ۔۔۔۔۔ ملتان ميں چوک رشید آباد ميں سینکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کيا، ڈیرہ چوک اور کنٹونمنٹ کے علاقے ميں ہوائی فائرنگ بھی کی گئی اس کے علاوہ شہر کے مختلف علاقوں میں رکاوٹیں کھڑی کرکے روڈ بلاک کیا گیا۔۔۔۔۔فیصل آباد ميں گلی اور چوکوں سےٹريفک اور ديگر پوليس کے اہلکار غائب ہوگئے ، شہر بھر ميں ہوائی فائرنگ کے واقعات ہوئے اور کئی دکانوں کو لوٹا گیا۔۔۔۔۔۔۔ رحیم یار خان ميں ضلعی ناظم سردار رفيق لغاری کا دفتر اور ق ليگ کے مرکزی اليکشن آفس کو مکمل طور پر جلا کر راکھ کرديا گيا، ڈی سی اوز کے دفاتر کو بھی جزوی نقصان پہنچا۔۔۔۔
اوکاڑہ ميں بے نظير بھٹو کی المناک خبر سنتے ہی کارکن دھاڑيں مارتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے ايک جلوس کی شکل اختيار کرتے ہوئے ڻٹائر جلائے اور ايم اے جناح روڈ کو بلاک کرديا مشتعل افراد نے سابق وزیر دفاع راؤ سکندر اقبال کے سينما پر دھاوا بول دیا اور وہاں زبردست توڑ پھوڑ کی ،مظاہرين نے پرویز مشرف اور راؤ سکندراقبال کيخلاف بھرپور نعرے بازی کی۔۔۔ ،چکوال ميں بے نظير بھٹوکے انتقال کی خبر کے بعد دکانیں بند ہوگئیں ۔۔۔۔ ٬ حافظ آباد ميں خوف وہراس پھیل گيا احتجاجاًٹرانسپورٹ کے اڈے خالی ہوگئے ،پیپلز پارٹی کے جیالے کارکن ایک دوسرے کے گلے لگ کر روتے رہےپیپلز پارٹی کے ضلعی صدر کی قيادت میں احتجاجی جلوس نے شہر ميں ق ليگ کے پوٹریٹ اور بينرز کو آگ لگادی۔۔۔۔ گوجر خان ميں سینکڑوں مشتعل افراد نے جی ڻٹی روڈ کو بند کرديا شہر ميں ق ليگ کے مرکزی الیکشن آفس کو نذر آتش کردیا گيا اور شہر ميں سخت وخوف و حراس پیدا کردیا۔۔۔۔۔ صوبہ سرحد کے مختلف شہروں ميں بھی بے نظير بھٹو کی ہلاکت کی خبر پہنچنتے ہی پيپلز پارٹی کے کارکن سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے شہر ميں توڑ پھوڑ کی پشاور ميں جی ٹی روڈ اور يونيورسٹی روڈ پر بند کرديا شہرکے زيادہ تر تجارتی علاقوں کی سڑکوں کو بند کردیا اور بجلی کی ترسيل بھی معطل کردی ۔۔۔۔!! معزز قائرین! آپ نے آگاہی حاصل کرلی کہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پر کس قدر جیالوں نے پری پلان اپنے ذمہداروں کے حکم پر قومی املاک کو جلایااور دہشتگردی و لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔
ایک شاہدین نے مجھے بتایا کہ کراچی میں جیالے بوری ہاتھوں میں تھامے سڑکوں پر نکل آئے تھے اور راہگیروں سے موبائل، بٹوے اور دیگر قیمتی اشیاکھلے عام لوٹ رہے تھے ، نہ پولیس ان کے خلاف حرکت میں آئی اور نہ ہی فوج نے ان کے خلاف قدم بڑھایا، آج تک اُس بھیانک دہشت گردی کے واقعات پر نہ تو ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ ہی کسی بھی سیاسی تنظیم نے آواز بلند کی جیسے کہ یہ واقعات پاکستان میں نہیں فلک پر رونما ہوئے ہوں ۔۔۔!! مجھ سے کئی لوگ سوال کرتے ہیں کہ آپ کے صحافی، اینکرز، رپورٹرز کی ان کے پینل پر کام کرتے رہیں گے کوئی بھی پاکستان کا ایسا صحافتی ادارہ نہیں جو حقائق کو سامنے لاسکے، کیا پاکستان اس لیئے بنایا تھا کہ لٹیرے غالب آجائیں ، اللہ پاکستان کی عوام کو عقل و شعور سے نوازے اور ہماری افواج کو بلا تعطل پاکستان مخالف قوتوں کے خلاف اقدامات کرنے میں سست روی سے باز رکھے، پاکستان کےبا شعور عوام، مفکرین، ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کرپٹ سیاسی لیڈران کے خلاف صرف ایم کیو ایم کے خلاف اقدام نظر آیا ہے پیپلز پارٹی اور نون کے خلاف کیوں نہیں کیا گیا ،کیا الیکشن دوہزار اٹھارہ کے بعد کریں گے یا پھر کرپٹ شخصیات کو کچھ لے کچھ دے کے زمرے میں آزاد کردیں گے دیکھیں وقت کیا بتاتا ہے ،اللہ پاکستان کا حامی ع ناظر رہے آمین ثما آمین ۔۔۔پاکستان زندہ باد ، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔۔۔! !