گھر جل رہا تھا اور سمندر قریب تھا

Explosion

Explosion

دو شہر میری نیم شعوری زندگی کی یاد بن کرآج تک میرے خیالوں میں زندہ ہیں۔ یہ شہر یکے بعد دیگرے میرے ماضی کا حصہ بنے۔ ایک خاص حوالہ، جو ہرگز خوشگوار نہیں، انکی کی وجہ شہرت بنا ۔ہفتے عشرے بعد کوئی نہ کوئی واقعہ ضرورپیش آجاتا جو ”پہلے ”شہر کو تذکروں کی شہ سرخی بنا دیتا۔بم دھماکہ، فائرنگ کا کوئی واقعہ یاجلاؤ گھیراؤکی کوئی اطلاع اسے لوگوں کی زبانوں پر پھر سے زندہ کردیا کرتی۔یہ بیروت تھا جو ان دنوں میدان جنگ بنا عالمی خبروںکو موضوع ہو اکرتا تھا۔

تب سے اب تک یہ جان پایا اور نہ کبھی جاننے کی کوشش کی کہ بیروت کے ساتھ یہ حسنِ سلوک آخر کیوں؟۔پھر رفتہ رفتہ اس ستم رسیدہ شہرکے تذکرے ماند پڑنے لگے۔اوراب ایک اور شہر نے اس کی جگہ لے لی۔” خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے” کے مصداق ،دوسرے شہر کا چرچا زبان زدِ عام ہونے لگا۔لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ اس کی وجہ شہر ت بھی وہی بنی جو کبھی بیروت کی رہی تھی ۔سو جب بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوتا،بم پھٹتا،کہیں آگ لگتی،گولی چلتی،احتجاج ہوتایافساد کی وبا پھوٹتی اخبارکی سرخیوں سے لوگوں کی زبانوں تک ایک ہی بات درد بھری آہ بن کرفضا کو سوگوارکرجاتی” افسوس کراچی بھی اب بیروت بنتا جا رہاہے ۔یہاں کے حالات بھی اب بیروت جیسے ہوتے جا رہے ہیں۔

قوت گزرتا رہااور حالات بد سے بد تر ہوتے گئے۔ انتشار تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔نتیجہ یہ نکلاکہ یہ بد قسمت شہراپنی شہرت میں خود کفیل ہو گیا۔۔ان کوئی بھی بیروت کاذکرنہ کرتا۔بات کراچی سے شروع ہو تی اور کراچی پر ختم۔

ہر گزرتے پل حالات کی سنگینی بڑھتی رہی۔کبھی جزوی امن ہوا بھی تو اس کے پردے میں ایک تباہی اس بد نصیب شہر اور اسکے باسیوں کے لئے پوشیدہ ہوتی۔یوں تو حکومتیں بھی بہت بدلیں اور چہرے بھی لیکن لوگوں کی توتقدیر نہ بدل پائی اور کراچی کرچی کرچی ہوتا رہا۔ضیائی آمریت ہمیں اسلامی نظام تو نہ دے سکی ہاں قوم کے اتنے ٹکڑے ضرور کر گئی کہ چاہیں بھی تونفرت کی یہ خلیج پاٹی نہیں جاتی۔ لسانیت و صوبائیت کا جو بیج اس خطے میں(خصوصاً کراچی میں) بویا گیا تھا۔۔

 Pakistan People Party

Pakistan People Party

وہ تیزی سے پروان چڑھااور دیکھتے ہی دیکھتے تناور درخت بن گیا۔ آمرکی رخصتی کے بعد بھی یہ برابر پھلتا پھولتا رہا۔بد قسمتی سے بعد کی جمہوری حکومتوںبھی اسکی نشوونما نہ روک پائیں۔سو تعصب کا پھل چاروناچار سب کو کھانا پڑا۔سندھ کی خلافت کا تاج اکثر و بیشتر پیپلز پارٹی کے سر پر سجا اور آج بھی یہی لوگ تخت پر رونق افروز ہیں۔لیکن افسوس حالات میں کسی بہتری کے آثار تو رہے ایک طرف کوئی ٹھوس حکمت عملی ،کوئی دانش مندانہ لائحہ عمل ،کوئی سیاسی عزم تک دکھائی نہیں دیتا۔

عبداللہ شاہ غازی کی نگری دورجدید کے طلسم ہوشربا سے ہرگز کم نہیں ؟ دنیا کی مشہور ترین بندرگاہ ،پاکستان کا پہلا دارلخلافہ ،لاکھوں مہاجرین کی پناہ گاہ، قائداعظم کی آخری آرام گاہ ، پاکستان کی معاشی شہ رگ اور سب سے پڑھ کر ”غریب کی ماں ۔مگر افسوس یہ و ہ دکھیاری ماں ہے جسے زخم دینے والے غیر نہیں خود اسی کے بیٹے ہیں۔اسی کے خون سے پروان چڑھنے والوں کو اپنی ہوس اقتدار کی خاطر مزیدخون کی اگرضرورت پڑی تو انہوں نے اپنی ہی ماں کے ارمانوں کو پامال کیا ،اسکی رگوں سے خون نچوڑا،اسی کے بیٹوں اور بیٹیوں کے خون سے اپنے محلوں میں چراغاں کیا۔

کوئی اِدھر کاٹ رہا ہے کوئی اُدھرنوچ رہا ہے” کا مکروہ کھیل کچھ اس سفاکی سے کھیلا گیا کہ چنگیزیت بھی تھرا اٹھی ۔ہر stick holder نے اپنی اپنی چھڑی سے جب چاہا ،جہاں چاہا اور جس طرح چاہا لاٹھی چارج کیا ۔کسی نے اس سے اسکی حیثیت چھینی، کسی نے اس کا قرار لوٹا، کوئی تھالی میں چھید کرتا رہا، کسی نے اسکی روشنیاں گل کر دیں، کسی نے لاشوں کے قلعے تعمیر کئے، کسی نے صوبائیت کا زہر انڈیلا، کسی نے قومیت کا تعصب بویا، کسی نے لسانیت کے کانٹے بوئے۔

کسی نے لوگوں کو گولیوں کی باڑ پر رکھ لیا،کسی نے بھتے خوری کو کچھ یوں رواج دیا کہ یہ بھتہ خوروں کی جنت بنا، کسی نے لاشوں کی سیاست کی تو کسی کی افتادِ طبع نے ” ٹارگٹ کلنگ ” کو باقاعدہ ایک جدید انڈسٹری کے روپ میں متعارف کرا ڈالا۔قصہ کوتاہ”حصہ بقدر جثہ ” کے جنگلی قانون کے تحت جس سے جو بن پڑا اس نے کیا اور یوں غریب کی جنت دہشت گردوں اور دہشت پسندوںکی جنت بن کر رہ گئی۔مجھے لگتا ہے کسی شاعرنے 21 ویں صدی کے اس جدید ”ہیرو شیما و ناگا ساکی ” کا نوحہ کچھ اس طرز سے لکھا ہے۔
بستی کے سارے لوگ آتش پرست تھے گھر جل رہا تھا اور سمندر قریب تھا

اسی شہر کی کوکھ سے جنم لینے والی متوسط طبقے کی جماعت ،جو پاکستان بھر کے متوسط طبقے کی ترجمان جماعت کی مدعی بھی،کے ذکر خیر کے بغیر کراچی کی داستان روکھی پھیکی رہے گی۔سو بطور تبرک ان کا تذکرہ ازحد ضروری ہے ۔اور آج کل تو ویسے بھی اسی جماعت کے چرچے ہر لسان کا عنوان بنے ہوئے ہیں۔کبھی یہ ایک پریشر گروپ ہوا کرتا تھا مگر بدقسمتی سے آج خود بے انتہا پریشر میں ہے۔اس پریشر گروپ کو زمانے کے سرد وگرم نے ایک انتہائی منظم جماعت کا روپ دے ڈالا۔

تمام تر مخالفتوں کے باوجوداس نے سندھ کے دونوں بڑے شہروں میں اپنی برتری یوںبرقرار رکھی ہوئی کہ ان کے بغیرسندھ کی حکمرانی دوسری جماعتوں کے لئے ڈراؤنا خواب لگتی ہے،غیراور حوصلہ شکن۔ کبھی یہ حزبِ اختلاف کی جماعت ہواکرتی تھی جس کے ساتھ بنا کے رکھنا کار شاید ناممکن کام تھا۔آخری آمر کے دور سے اس جماعت نے کیا خوب چولا بدلا کہ ایوان کی غلام گردشوں کی اسیر ہو کر رہ گئی ۔کوئی دس بارہ سال اختیارات کے مزے لوٹنے کے بعد یوں ایکسپوز ہوئی کہ اپنی حدود کا احساس کھو بیٹھی۔قوت فیصلہ کی کمزوری نے نہ صوبائی کشتی میں بیٹھنے دیا نہ وفاقی جہاز میں ۔یوں خدا تو نہ ملا اور ”صنم”بھی روٹھ گئے ۔حالیہ الیکشن میں اپنی کارکردگی اوربعد ازاں میٹرو پولیس کے دباؤ نے رہی سہی کسر بھی نکال کر رکھ دی۔

اب صورت یہ ہے الطاف بھائی کو میٹرو پولیس اپنے ہمراہ لے جا چکی ہے اور یہ جماعت اسی سبب سے اپنی زندگی کے سب سے مشکل دور سے گزر رہی ہے۔جس کے اثرات کراچی کی فضا میں خوف بن کر طاری ہیں۔ایم کیو ایم کو حالات کی نزاکت کو جتنا جلد ادراک ہو گا اتنا اس کے حق میںبہتر ہوگا۔انکی پریشانی فطری سہی لیکن بدحواسی تو کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔

میٹرو پولس ان کے ہاتھ میں نہیں لیکن کارکنان تو ہیں ۔انہیں اس بات پر شکر کرنا چاہئے کہ مخالف سیاسی جماعتوں نے الطاف بھائی سے خیر سگالی کا اظہار کیا ہے ۔وہ صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی ہمدردی بھی سمیٹ سکتے ہیں ۔سو اس برداشت اور کمال صبر کا مظاہرہ بہترین حکمت عملی ہوگی ۔ایک سابق وزیر اعظم کہا کرتے ہیں ” جو آپ کو لا سکتے ہیں وہ آپ کو بھیج بھی سکتے ہیں”۔الطاف بھائی کے چاہنے والوں کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے ”جو آپ کو پناہ دے سکتے ہیں وہ سزا بھی دے سکتے ہیں۔

حالیہ الیکشن میں ایک اہم تبدیلی نے مجھے خوشگوار حیرت میں مبتلاکیا ہے اور خوش فہمی تو خیر ہم پاکستانیوں نے وارثے میں پائی ہے شاید ۔سو بہتری کے حوالے سے بہت سے خواب جاگتی آنکھوں نے اپنے اندر سجا لئے ہیں ۔اور مجھے امید کی ایک انتہائی روشن کرن نظرآنے لگی ہے ۔دل ہی دل میں بہت خوش بھی ہوںکہ شکر ہے منی پاکستان کی ”ساڑھ ستی ”اب دور ہونے کو ہے۔روشنیوں کے شہر کی رونقیں جلد بحال ہوا چاہتی ہیں اور ایک نئے اور پر امن دور کا آغازسابقہ دارالحکومت کے دروازے تک آ ن پہنچا ہے۔دستک اب ہوئی کہ تب ۔صرف اور صرف ایک الیکشن کا دریا درمیان میں حائل ہے اور پھر اس کے باسیوں کی کشتی ساحل مراد سے جا لگے گی ۔یہ تاثر تحریک انصاف کے کی پذیرائی سے قائم ہوا ہے۔جس نے لاکھوں ووٹ لیکر ”اپ سیٹ”کر دیاہے”۔ آخری پیرا گراف کوئی ایک سال قبل لکھے ایک ادھورے کالم کا ہے۔جس کا اختتام میں نے اس شعر پر کرنے کا سوچا تھا۔ صبح روشن میں بہت دیر نہیں ہے لیکن ابھی عجلت میں چراغوں کو بجھا مت دینا۔

Safder Hydri

Safder Hydri

.تحریر:صفدر علی حیدری
([email protected])