آتشِ انتقام

Central Jail Sibi

Central Jail Sibi

سنٹرل جیل سبی کی بارک نمبر 9 سے اس جھلسا دینے والی شیدید ترین گرمی میں تقریباََ رات کے گیارہ بجے ان نعتیہ اشعاروں نے ساما باندھ دیا۔ اس پر تاثیر اور جادوئی آواز نے جیل میں قید سب قیدیوں کو اپنے حصار میں لپیٹ لیا اور ایک مجھ پر کیا سب پر سحر طاری ہو گیا۔ اس آواز نے پہلی بار میری سماعتوں کو متاثر نہیں کیا بلکہ اسے سنتے ہوئے مجھ پر پانچواں دن بیت چکا تھا ۔ جیل کے تمام قیدی روحانیت کی گہرائیوں میں پہنچ کر یک زبان ہو کر ” سبحان اللہ” کی صدائیں بلند کرنے لگے یہ ان دنوں کی بات ہے جب گزشتہ برس ماہ رمضان میں مجھے سچ بولنے اور سچ لکھنے کی پاداش میں جرائم پیشہ عناصروں اور مقامی جاگیرداروں نے مقامی پولیس سے ساز باز کر کے سنگین قسم کی دفعات لگوا کر مجھے ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کروا دیا تھا۔

پولیس نے بھی رشوت کی رقم حلال کرنے کی خاطر مجھے پولیس فائل میں گہنگار ثابت کر کے چلان کر کے جیل بھجوا دیا تھا مجھے جیل کی بارک نمبر7 میں آئے پانچواں یوم تھا ۔ جیل ایک ایسا مقام ہے جہاں زندگی ناپید اور سانس لینا بہت دشوار ۔۔۔۔۔اس کی دیو قامت چار دیواری پر نظرپڑتی ہے۔ تو یوں لگتا ہے جیسے کسی نے مٹھی میں بند کر کے قید کر کے رکھا ہو۔۔۔بارکوں کے آ ہنی جنگلوں کو دیکھ کر دل دہل کر رہ جاتا ہے۔۔۔۔ملک الموت صفت جیلروں کی بلا وجہ ڈانٹ ڈپٹ سے قیدی سہم کر رہ جاتے ہیں۔ جیل انتظامیہ کی لاپرواہی کی وجہ سے اور حکام کی عدم توجہی کی وجہ سے قیدی پانی کی بوند بوند کو ترس جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ روزہ دار قیدیوں اور نمازیوں کے لیئے وضو کا پانی ستیاب نہیں ہوتا۔۔۔۔ قیدیوں کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک دیکھ کر گماں ہوا کہ یہاںایک سے بڑھ کر ایک مظلوم ہے۔ ۔۔۔۔ گویا کہ جانوروں سے بھی برتر سلوک قیدیوں کے ساتھ برتا جاتا ہے۔

جے دم جیسوں یاد کریسوں برکتاں ماہ رمضان دیاں
امت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تے نازل ہوئیاں رحمتاں رب رحمن دیاں

مسجد اندر آئیاں نیں بہاراں پڑھیاں نمازاں روزے داراں
تسبیہاں پڑھیاں مومناں ساراں عزتاں آئے مہمان دیاں

قاری پئے قرآن سنیندے ، سنن والے پئے درجے پیندے
کھوٹ دلاں دے صاف تھی ونیدے صورتاں سن قرآن دیاں

جے آسیں توں ولدے سال اے خیر خوشی سی خبر سناویں
بنڑیاں جڑیاں آن و نجاویں تجویزاں شیطان دیاں

جلدی آویں توں ولدے سال اے روزے رکھسن قسمت والے
کئی ونج سمسن قبر وچاے حسرتاں چھوڑ جہان دیاں

جے دم جیسوں یاد کریسوں برکتاں ماہ رمضان دیاں
امت نبی تے نازل ہوئیاں رحمتاں رب رحمن دیاں

یہاں چاروں طرف اداسی اپنے بال کھولے سوئی ہوئی اور ہر طرف اجنبیت محو رقص نظر آتی ہے۔ جیل میں مقید قیدی چلتی پھرتی زندہ لاشیں محسوس ہوتی ہیں۔ جیل میں داخل ہوتے ہی اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ اور انسان کے پاس رونے کے سوا کوئی چارہ نہیںہوتا۔ ۔۔۔۔ اپنی اپنی بارک میں میں نیا تھا اور اپنی قسمت پر ماتم کناں تھا ۔۔۔۔ اور ہوا کے دوش پر سوار ہو کر ماحول پہ اثر انداز ہو کر سحر پیدا کرنے والی پرتاثیر اور جادوائی آواز کا صرف میں ہی نہیں سارا جیل خانہ پرستار دکھائی دیتا تھا۔ میںاس شخص سے ملنا چاہتا تھا۔ اسے دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن ہمارے درمیان دیواریں حائل تھیں۔ جی تو چاہتا تھا دیوار پھلانگ کر اس جادوائی آواز والے قیدی سے ملکر اس سے دریافت کروں کہ وہ یہاں کیوں آیا ؟ مگر بے سود۔۔۔۔۔۔ بالاآخر ایک دن مجھے قسمت نے اس سے ملا ہی دیا۔ ۔۔۔۔ صبح کو ساڑھے نو بجے کا ٹائم تھا کہ لائوڈ سپیکر میں ملاقاتیوں کے نام پکارے جانے لگے جن میں میرا بھی نام تھا مجھے میرے کھڈے والے قیدیوںنے بتایا کہ آپ کی ملاقات آئی ہے آپ چکر پر چلے جائیں (چکر جیل کے درمیان والی جگہ کو کہتے ہیں۔ ہر بارک کا دروازہ چکر کی جانب کھلتا ہے وہاں پر ایک چیف اور بھاری نفری بھی موجود ہوتی ہے)۔

میں بھی اپنا حوالاتی ٹکٹ ہاتھ میں پکڑ کر ملاقات کرنے والے قیدیوں اور حوالاتیوں کی صف میں شامل ہو گیا۔ جب ملاقات والے شیڈ میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں ڈیر سارے قیدی ہاتھوں میں ٹکٹ پکڑے ہوئے تھے اور ان کے درمیان وہ قیدی حسب معمول نعتیہ اشعاروں سے اپنی آواز کا جادو جگا رہا تھا اور قیدی لطف اندوز ہو کر جھوم رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے ہم محفل سماع میں داخل ہو گئے ہوں۔ مجھے دیکھ کر کچھ شرارتی قیدی آوازیںکسنے لگ گئے کوئی کہتا “نواں آیا ایں سونیا” تو کوئی کہتا تھا کہ ” آجا میرے بالما تیرا انتظار ہے” خیر میں آگے بڑھ کر نعت گنگنانے والے شخص کو سلام کیا اس نے جھک کر مجھے سالم کا جواب دیا اور مجھے اپنے ساتھ بیٹھنے کو کہامیں بھی اس کے ساتھ گراسی پلاٹ میں بیٹھ گیا ۔ میرے سامنے ایک قلندر نما شخص براجمان تھا۔

اسکا چہرہ نورانی تھا۔ اس اڈھیڑ عمر قیدی کی شخصیت کو باریش چہرہ ، قدرے لمبی سفید زلفیں اور مسکراہٹ چار چاند لگا رہی تھی۔ میں نے اپنا تعارف کروانے کے بعد اس سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ نہایت ہی بھلے مانس اور شریف اور نیک انسان ہیں آپ جرائم پیشہ تو نہیں لگتے پھر آپ یہاں کیوں قید ہیں۔ تو اس نے یہ کہ کر مجھے لاجواب کر دیا کہ آپ بھی ایسے نہیں لگتے آپ بھی تو اس دنیا دار دوزخ خانے میں آہی گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک تو ہمارے ملک کا قانون کسی کام کا نہیں جسکی وجہ سے 100 میں سے 95 فیصد لوگ بے جرم مذہبی ، سیاسی یا ذاتی رنجشوں کی بھینٹ چڑھ کر جیل میں سزا بھگتنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ خیر میں نے اس سے دوسرا سوال یہ کیا کہ آپکی یہ حالت کس نے بنائی اور آپ یہاں کیسے آئے۔ تو اس اڈھیر عمر قیدی کی آنکھیں ساون کے بادلوں کیطرح برسنے لگیںاور اس کی ہچکی بند گئی اور اس نے اپنا سر نیچے جھکا لیا۔ قارئین مجھے جیل کی ان گنت داستانیں یاد ہیں۔ جنہیں میں نے اپنے دل کے کنویں پر سجایا ہوا ہے مگر اب کے بار رمضان کے مہینے میں بے ساختہ اس کی داستاں یاد آئیں جس کو میں قرطاس پہ بکھیرنے کے لیئے مجبور ہو گیا۔

رمضان عرف جانی نے 1970 ء میں محمد حنیف کھوکھر کے گھر جوہر آباد ضلع خوشاب میں آنکھ کھولی۔ اس سے چھوٹے اس کے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔اسکے والد مرحوم ایک گورنمنٹ کالج میں لیکچرار تھے اور انکی امی ایک بنک میں منیجر تھیں۔ دونوں میاں بیوی نے اپنے بچوںکی تعلیم و تربیت اچھے طریقے سے کی یہی وجہ تھی کہ رمضان عرف جانی ایک سلجھا ہوا اور سمجھدار انسان تھا اس کے ابو کے پاس دو مربعے زرعی اراضی بھی تھی جسے وہ خود کاشت کرتے تھے۔ اور گھر پر نوکر وغیرہ بھی رکھے ہوئے تھے۔ اور خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ انکی نسبت انکی برادری کے اکثر لڑکے آوارہ مزاج تھیاور انپڑھ بھی تھے جسکی وجہ سے وہ جاہلیت کا شکار تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ انکی فیملی ترقی کرے اس لیئے وہ اکثر اوقات مختلف حیلوں اور بہانوں سے ان کے ساتھ لڑنے کے لیئے ہمہ وقت تیا ررہتے تھے۔ بالاآخر ایک دن وہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہو ہی گئے۔ رمضان کے ابو نے اسکی چھوٹی بہن ساجدہ حنیف کا رشتہ آئوٹ آف فیملی میں طے کر دیا تھا۔ اور بات بھی پکی ہو گئی تھی اسی بات کو وجہ عنا د بنا کر انکے رشتہ دار تعیش میں آگئے۔ اور برادری کی ایک پنچائیت میں رمضان کے والد کو گولیوں سے چھلنی کر کے اسے ہمیشہ کے لیئے ابدی نید سلا دیا۔ انکے پورے گھرانے پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔ ان کے مخالفین نے اسکے جنازے کا انتظار ہی نہ کیا اور انکی جائیدار پر قبضہ کر لیا اور رمضان پر اس کے والد کے قتل کا مقدمہ کروا کے جیل بھجوا دیا اسے بہت دکھ ہوا وہ غم سے نڈھال تھا ایک تو اس کے والد کو مخالفین نے قتل کر دیا اور دوسرا ظلم یہ کہ اسی پہ اسکے والد کے قتل کا الزام لگا کر اسے جیل منتقل کروا دیا۔ اس وقت رمضان عرف جانی 13 برس کا تھا اور اس وقت اسکی عمر 45 سال ہے۔

Sibi

Sibi

ظلم کی انتہا تو یہ کہ دشمنوں نے ان کا مکان بھی چھین لیا اور یوں رمضان کی فیملی کھلے آسمان تلے تنہا رہ گئی اور سب گھر والے پتہ نہیں کہاں ہیں۔ رمضان کو اس بارے کچھ پتہ نہ تھا۔ رمضان عرف انی کو قید و بلا کی صعوبتیں گزارتے تیرا سال تھا اور نکا مقدمہ شہادتوں تک آن پہنچا تھا۔ کہ اچانک دونوں گواہان ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہو گئے۔ اور رمضان کا نصیب ایک بار پھر جاگا کہتے ہیں اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ جب پڑتی ہے تو آوازنہیں آتی مگر ظالموں کی نسل تباہ و برباد کر جاتی ہے۔ شہادتوں میں گواہان کی عدم موجودگی پر عدالت نے رمضان عرف جانی کو رہا کر دیا۔ رمضان عرف جانی کے اندر انتقام کے شعلے بھڑک رہے تھیجب وہ گھر آیا تو کچھ نہ پایا۔ اس نے ایک جوگی کا روپ دھار کر دشمنوں کے علاقے کا رخ کیا اسی اثنا میں اس نے اپنی ماں اور بہن بھائیوں کو ڈھونڈنے کی سرتوڑ کوشش کی مگر کارگر ثابت نہ ہوئی۔ وہ کہیں بھی نظر نہ آئے۔ رمضان عرف جانی جوگی بن کے دشمنوں کے گھروں میں جاتا وہ جوگی سمجھ کر عزت کرتے بالاآکر اس کے والد کے قاتلوں نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا اور سے کہا کہ بیٹا تم جہاں مرضی رہو۔

رات کو ادھر آجایا کرنا کھانا یہیں سے کھانا۔ اور یہیںسونا یہ آپکا گھر ہے۔ رمضان جانی جب اپنے باپ کے قاتلوں کو دیکھتا تو اس کی آنکھ نم ہو کر چھم چھم برسنے لگتی۔ اور وہ اپنے باپ اور دیگر حقیقی رشتہ داروں کی جدائی میں تڑپنے لگتا۔ اس کا جسم کانپنے لگتا اور وہ بے ہوش ہو کر نیچے گھر جاتا ۔ جب ہوش میں آتا تو باپ کے قاتلوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے پاتا ۔ خیر وقت گزرتا گیا اور وہ لوگ رمضان عرف جانی پر اندھا اعتماد کرنے لگے۔ انہوں نے اپنی جائداد ، مال دولت ہر چیز رمضان کے ہاتھ میں دے دی وہی جائیداد اور رقبہ جو کبھی اس کے والد کے نام ہوا کرتا تھا۔ اور یہ اسے کاشت کیا کرتے تھے۔ چند برسوں بعد جب رمضان عرف جانی نے اپنا سامان اکٹھا کیااور اپنی پٹاریاں کندھے پر رکھ لیں۔ اور ان سے کہا کہ مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معاف کرنا۔ میں آج سے یہاں سے پکا پکا اپنے گھر جا رہا ہوں۔ یہ سنتے ہی وہ زاروقطار رونے لگے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپکو ایسے نہیں جانے دیں گے۔ رمضان نے کہا جو بھی ہو جائے میں یہاں نہیں رکنے والا۔ ہاں میں شام تک انتظار کر سکتا ہوں۔ آپ سارے لوگ اکھٹے ہو جائواور ہم شام کا کھانا سارے لوگ اکٹھے بیٹھ کر کھائیں گے اور میں آپ سب سے اجازت لے کر اپنے گھر کے لیئے رخصت سفر باند لوں گا۔ انہوں نے شام کی ضیافت کا اہتمام کیااور اپنے مخصوص عزیزو اقارب اور دوستوں کو بھی بلایا اور شام کو اپنے گھر کی میز پر رمضان جانی کا انتظار کرنے لگے۔ جب اندھیرا چھانے لگا تو رمضان عرف جانی نے اپنی رنجیل سے رائفل نکالی اور اندر داخل ہوتے ہی للکارا کہ شوکت، شفقت، نصرت اور عشرت کے سوا باقی سارے سائیڈ پہ ہو جائو۔ وہ سب ایک طرف ہو گئے انہوں نے دیکھا کہ رمضان کی آنکھوں میں انتقام کی لہر نظر آرہی تھی۔ رمضان نے قاتلوں کو قتل کر کے اپنے باپ کا مْاص لے لیا وہ اب جیل میں مطمئن ہے۔ کہ میں بدلہ لے کر مجرم بن کر تو جیل میں قید ہوں قانون نے مجھے بے گناہ مجرم تو نہیں بنایا مجھے جیل سے آئے کافی عرصہ ہو گیا مگر اسکے نعتیہ اشعار اب بھی میرے کانوں میں گونجتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بے گناہ قیدیوں کو جلد رہا کرے۔ (آمین)

Syed Mubarak Ali Shamsi

Syed Mubarak Ali Shamsi

تحریر : سید مبارک علی شمسی
ای میل۔۔۔۔۔۔[email protected]