تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری بتایا گیا ہے کہ لاہور میٹرو کا تمام ریکارڈ جس کمرہ میں محفوظ رکھا گیا تھا وہ جل گیا ہے کہ آگ کی مہربانیاں صرف حکمرانوں پر ہی ہوتی ہیں غریب کا گھونسلانما گھر جل جائے تو اس کی تمام جمع پونجی اور سارا گھریلو سامان جل کر خاکستر ہوجاتا ہے مگر سرکاری ریکارڈ کو آگ لگ جائے تو کروڑوں اربوں کا حکمرانوں ،تعمیر کرنے والے ٹھیکیداروں و دیگر سرکاری سٹاف بمعہ وزراء کو فائدہ پہنچ جاتا ہے آگ لگنے سے سارے کیے گئے گھپلوںکے نام و نشان ہی مٹ جاتے ہیں مرحوم سابق مئیر ملتان جناب صلاح الدین ڈوگر کے خلاف اینٹی کرپشن میں تحقیقات شروع ہوئیں تو میونسپل کارپوریشن ملتان کے اسی خاص کمرہ میں آگ بھڑک اٹھی جہاں ان کے “کار ہائے نمایاں ” کاریکارڈ موجود تھااب اینٹی کرپشن والوں کوجب کوئی ثبوت ہی نہ ملاتو وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے کیا تحقیق کرتے مرتے کیا نہ کرتے مقدمہ ختم اور مرحوم مئیر باعزت بری ہو گئے اسی طرح بالکل یہی صورتحال جناب آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات میں پیش آچکی ہے ریکارڈ ناپید گواہ بھی دم دبا کر بھاگ لیے تو ثبوت کہاں سے مہیا ہوتے بس مقدمہ ختم اور نام نہاد نامزد ملزم بھی باعزت بری ہو کر دودھ سے دھلاصاف شفاف ہو گیااسلام آباد میٹرو اور سی پیک منصوبوں کی ساری رپورٹیں خرچ کی گئی رقوم کا ساراریکارڈبھی آگ کی نظر ہو چکاآگ یہاں بھی تمام متعلقہ حکام و ذمہ داران پر نظر شفقت کر گئی ریکارڈ جل گیااس طرح مدعا گم سارا مال گم اور ہضم ہو گیا۔اصل میں آج کے دور میںآگ خود تلاش کے بعد وہاں جا پہنچتی ہے جہاں مال ومتال ہضم کر لیے گئے کاغذات اور متعلقہ ریکارڈ رکھا ہوتا ہے تاکہ گھپلہ شدہ سرمایوں کا اتا پتہ بھی نہ مل سکے کہ ایسے قیمتی ریکارڈ کا کسی دوسری جگہ یا متعلقہ دفتر میں کمپیوٹر وغیرہ کے اندر محفوظ جان بوجھ کر نہیں کیا جاتاتاکہ سند بھی نہ رہے اور بوقت ضرورت کام بھی نہ آسکے۔
یعنی اس محاورہ کا الٹا پہاڑا پڑھ لیا جاتا ہے اسلام آباد کے عوامی مرکز میں لگنے والی خوفناک اور اچانک آگ جہاں بیچارے غریب افراد کو جلا کر راکھ بنا گئی وہیں تقریباً پانچ درجن ارب روپوںکے منصوبوں اور ان پر خرچ کی گئی رقوم کا بھی ریکارڈ جل کر خاکستر ہو گیاضیاء الحق کے دور میں افغانستان کے اندر روس کے خلاف امریکی جنگ کے دوران ہمیں کھربوں روپوں کا قیمتی اسلحہ امریکہ نے بھجوایا تھا اس کے ذخیرہ کو اسلام آباد پنڈی کی پہاڑیوں میں آگ لگی اور متعلقین کے وارے کے نیارے ہو گئے کہ کبھی معلوم ہی نہ ہو سکا کہ کس مالیت کا اسلحہ وہاں پڑا تھاملتان کے ایم ڈی اے کے دفترمیں بھی مخصوص جگہ پر آگ لگی اور صرف وہی ریکارڈ آگ نے جلایا جو کہ متعلقہ ضروری تھا باقی کو تو آگ نے بھی چھوڑدیا کہ ان میں فضول قسم کا ریکارڈ جس میں کسی رقوم و حساب کتاب کا ذکر نہ تھاوہ محفوظ رہاآگ نے سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے صرف میٹرو کے ریکارڈ کو ہی راکھ میں تبدیل کیا باقی کاغذات اس کی خشمگیں نگاہوں سے مکمل محفوظ رہے واضح رہے کہ ہر ٹھیکے میں کم ازکم آٹھ فیصد کمیشن لازمی ہوتا ہے جس کی نسبت و تناسب کچھ یوں ہوتی ہے کہ چھ فیصد متعلقہ حکمرانوں وزراء وغیرہ کا اور باقی دو فیصد نچلے افسران کا ہوتا ہے۔
کئی ٹھیکے تو آگے ٹرانسفر یعنی SUB LETکردیے جاتے ہیں اور خود بھاری رقوم ایڈوانس ہی لے کر اصل ٹھیکیدار رفو چکر ہو جاتے ہیں یہ سب کچھ اس پولیس کے ایس ایچ او کی طرح کیا جا تاہے جو کہ تمام نشہ فروشوں اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کرنے والوں ،2نمبر اشیاء و ادویات تیار کرنے والوں،جوا خانوں ،اور مشہور ڈکیتوں سے منتھلی لے رہے ہوتے ہیںیہاں تک کہ عمارت کی تعمیر یا کسی پراجیکٹ کے شروع کرنے سے قبل اس کا جو بلیو پرنٹ تیار کیا جاتا ہے اس میں اس کی موٹائی، پیمائش میٹریل کا مکمل ذکر ہوتا ہے مگرجب اس کی تعمیر شروع ہوتی ہے تو یہ نام نہاد کاغذ گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب رہتا ہے نہ اس کی کوئی پابندی کرتا ہے اور نہ ہی توجہ۔کس تناسب سے میٹریل لگنا ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا صرف مال کمائو اور بھاگ جائو کا فارمولہ ہی قابل عمل ہوتا ہے پھر کئی معاہدوں کی تحریر کے وقت ایسی پابندی بھی لاگو کی جاتی ہے کہ اس کے مندرجات کو دس یا پندرہ سال تک کوئی چیک نہیں کرسکتا تاکہ راز فاش نہ ہو اور اندر ہی اندر حرام مال بیرون ملک ٹرانسفر ہو کر وکی لیکس اور پانامہ لیکس نامی خزانوں میں جمع ہو تا رہے غرضیکہ حکمران کھربوں روپے باہر جمع کرواتے رہتے ہیں اور انتخابات میں ووٹر ہر نئے فرد کے وعدوں کی گھوم چکریوں میںپڑ کر پھر اگلی دفعہ لٹنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح نجفی کمیشن رپورٹ اب پنجاب کی ہی وزارت داخلہ میں مدفون پڑی ہے ہائیکورٹ لاکھ کہتی رہے کہ اسے منظر عام پر لائو مگر حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔لیاقت علی خان کے قتل کی رپورٹوں کی طرح یہ رپورٹ بھی شاید وزارت داخلہ کے دفتر سے گم ہو جائے گی مگر اس کو آگ لگنا ایک مشکل امر ہے کہ جسٹس نجفی کے پاس تو اس کی کاپی محفوظ ہوگی یہاں آگ شاید حکمرانوں سے روٹھ جائے کہ پیسوں کے گھپلوں کے حساب کتاب کو تو وہ جلا کر راکھ کردیتی رہی ہے مگر یہاں معصوم مقتولوں کے قاتلوں کو تختہ دار پر لٹکانے کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچنے میں مخل ہونے سے معذرت کرتی نظر آتی ہے۔