پہلا قطرہ مگر کون؟

Social Media

Social Media

تحریر: نگہت سہیل
سوشل میڈیا بھی عجیب چیز ہےـ عجیب وڈیوز عجیب کہانیاں ہمارے سامنے لاتا ہےـ کل ایک وڈیو پر نگاہ پڑی جس پر تحریر تھا کہ اسکو آگے پھیلائیں تا کہ معاشرے کے ناسوروں کا خاتمہ ہو سکے۔ وڈیو کیا تھی کہ ایک دوکان میں ڈاکے کی سی سی فوٹیج تھی جس میں دو نو عمر لڑکے یا نوجوان کہہ لیں جنہوں نے صرف پستول دکھائی اور پھر نیفے میں اُڑس لی ـ دوکان کا مالک جس تسلی سے کرسی پر بیٹھا تھا اسی طرح بیٹھا رہا اچھا خاصہ صحتمند آدمی تھا۔

اور کاؤنٹر کے اندر دو تین قد آور لڑکے بھی کام کررہے تھے جو جامد و ساکت ہو گئے ـ داخل ہونے والے پہلے نوجوان نے کاؤنٹر کا رخ کیا ـ اور دوسرے نوجوان نے دوکان پر موجود تمام دیگر ملازمین کو اکٹھا کر کے زمین پر بٹھا دیا۔

بغیر پستول نکالے وہ جو حکم دے رہے تھے یہ لوگ مانتے جا رہے تھے جیسے کوئی پیر صاحب تشریف لائے ہیں اور یہ بصد احترام ہاتھ باندھے کھڑے ہیں کاؤنٹر پر جانے والے نوجوان نے انتہائی تسلی سے تمام رقم بیگ میں ڈالی پھر سب کے بٹوے نکلوائے بشمول مالک کے ـ جس نے بیٹھے بیٹھے بٹوہ ان کے حوالے کر دیا ـ کمال مہارت سے اس نے فوری طور پے رقم چیک کی اور بیگ میں ڈالی اس کے ساتھ ہی رخصت ہو گئے۔

وڈیو دیکھ کر بے ساختہ ہنسی آگئی مجھے بالی وڈ کی مشہورِ زمانہ فلم شعلے کا کردار گبر سنگھ یاد آگیا جس کا ڈائیلاگ آج بھی اتنا ہی مشہور ہے جتنا کل تھا کہ کتنے آدمی ہیں ـ اس کے بعد کا ڈائیلاگ سب جانتے ہیں سوچنے کی بات یہ ہے سات سے آٹھ آدمی دو کمزور نوجوانوں کا مقابلہ نہیں کر سکے ان میں سے ایک کو دبوچنا بہت آسان تھا جو تین لوگوں کے گھیرے میں کھڑا رقم چیک کر رہا تھاـ یہ ناسور وہیں پر پکڑے جاتے اور جس نے یہ پوسٹ شئیر کی ہے اسکو سوشل میڈیا کے دوستوں سے اتنی مِنتیں نہ کرنی پڑتیں ـ کیونکہ ہم صرف مذمت ہی کر سکتے ہیں کسی ایک کو بارش کا پہلا قطرہ بننا ہی ہوگا ـ ایسے ناسوروں کو دبوچنے کیلیۓ خود ہمیں ہمت اور حوصلہ اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا کیونکہ یہ تعداد میں کچھ زیادہ نہیں ہوتے ـ اور ایسے کمرشل ایریا میں کام کرنے والوں کی تعداد ان سے کہیں گُنا زیادہ ہوتی ہے۔

 Videos

Videos

ویسے بھی ایسے جرائم میں ملوث افراد اندر سے بزدل ہوتے ہیں ہتھیاروں کے سہارے ان کی زندگی گزرتی ہے اور انہی ہتھیاروں کے استعمال سے ان کی زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں ـ ایک سوچ یہ بھی ابھری کہ حرام کی کمائی کے آنے کے بہت سے فراغ درازے بہت سے ہوتے ہیں لیکن جانے کا کوئی دروازہ نہیں وہ ہوا میں بکھر جاتی ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم جو کام کر رہے اس میں ناجائز منافع غیر معیاری اشیاء کی فروخت یا بلا وجہ ذخیرہ اندوزی کے مرتکب تو نہیں ـ جب ہمارے مذہب میں واضح طور پر کاروباری اصول و قواعد بتا دیے گئے ہیں تو ان سے انحراف کرنے والوں کو ہم کیا کہیں گے؟

شائد ایسی کمائی کھا کھا کر ہم اتنے بزدل ہو چکے ہیں کہ دو نوجوان 8 یا 9 لوگوں کو لوٹ کر چلتے بنتے ہیں اور یہ لوگ اُن دو کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیا ہماری قوم سو چکی ہے اسے بیدار کرنے کیلیۓ کس کرامت کا انتظار ہے؟ چار لوگ بس پر چڑہتے ہیں اور 43 بے گناہ بے قصور لوگوں کو بھون ڈالتے ہیں کہ جب کسی گھر میں معصوم کلیاں جل رہی ہوتی ہیں تو مدد کیلئے آنے والی گاڑی میں پانی ہی، نہیں کیا۔

اب وہ وقت نہیں آ گیا کہ ہم اتنے گھروں کی بربادی دیکھ کر قومی غیرت کو جگا کر پہلے خود قدم اٹھا کر حالات کو تبدیل کرنے کی سعی کریں کہیں تِو پرائیویٹ کلینک میں غیر قانونی ناجائز کام کئے جا رہے کہیں دکھاوے کیلیۓ بیٹیوں کو بیرون ملک ایسے اشخاص سے غربت ختم کرنے کیلیۓ بیاہ دیا جاتا ہے جس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اس معاشرے کو سنوارنے کیلیۓ بارش کا پہلا قطرہ کون بنے گا؟

Pakistan

Pakistan

اگر سب دوسروں کو دیکھتے رہیں گے تو قحط سالی کی نوبت آ جائے گی ـ پھر سب اناج کے ایک دانے کو ترسیں گے ہر سمت صرف لاشیں اور خون ہی نظر آئے گا ـ ضرورت صرف اپنے اندر کو سدھارنے کی ہے ـ اگر دین پر خلوصِ نیت سے چلا جائے گا تو ہو نہیں سکتا کہ پاکستان جیسے عظیم ملک کو بار بار تباہ و برباد کرنے کے منصوبے اس کے اندر ہی فشار پیدا کرنے والے فسادیوں کو کھلا چھوڑا جا سکے یا ان کی بیخ کنی نہ کی جا سکے۔

تحریر: نگہت سہیل