تحریر: فرخ شہباز وڑائچ ملاقات کا ٹھیک سال اور مہینہ مجھے کبھی بھی یاد نہیں رہا، پتا نہیں لوگ کیسے صحیح تاریخ اور دن بتا کر ملاقات کا احوال بیان کرتے ہیں۔ ایک عام سے مہینے اور اس مہینے کے کسی عام دن میں میری ملاقات اس نوجوان سے ہوئی ،چہرے پر خوبصورت داڑھی، سفید رنگ اور طبیعت میں گرمجوشی ہی کسی کے حافظے میں رہنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ پہلا تاثر بڑا عجیب ہوتا ہے میں نے بھی اس کی داڑھی کا سائز دیکھ کر اسی طرح کا ایک تاثر بنایا، مگر ایک میرے ساتھ عجیب وغریب معاملہ ہوا یوں کہہ لیجیے”ہاتھ” ہوگیا یہ لڑکا تو مذہبی ہونے کے ساتھ سمجھدار بھی ہے اور دلیل کے ساتھ بات کرنا جانتا ہے یہ ہم ایسوں کے لیے حیرانی اور پھر خوشی کا سامان تھا۔بات طول نہ پکڑے اسی لیے عرض کیے دیتا ہوں ہم آج تک وہ کامیابی کے قصے سناتے رہے ہیں جو ہمیںسنائے گئے ہیں، جس طرح سنے اسی طرح آگے بیان کردیے۔ لیکن کچھ کہانیاں بالکل اپنے کردار کی طرح نکھری اور حقیقی ہوتی ہیں ان میں سے ایک کہانی رضوان اللہ خان کی بھی ہے ،سو فیصد ہماری اپنی کہانی، میں نے اس نوجوان دیکھتے ہی دیکھتے ”گرومنگ ” کا سفر طے کرتے دیکھا ہے،یہ وہی گرومننگ ہے جس کے متعلق میرے نبی مہربان ۖ نے فرمایا تھا ”تباہ ہو گیا وہ شخص جس کا آج اس کے کل سے بہتر نہیں”۔
میرے سامنے اس نوجوان کی باتوں کو پسند کرنے والے اور اسکی تحریر کو خضوع و خشوع سے پڑھنے والے منظر عام پر آئے ۔آپ رضوان کو ملنے والے فیڈ بیک سے ان کی فین فالونگ کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں،جس سپیڈ سے رضوان آگے بڑھ رہا ہے مجھے لگتا ہے یہ آنے والے دنوں میں تحریر اور تقریر کے ماہرین کو ناکوں چنے چبوائے گا یہ ہنر ضرور اسے ہمارے ایڈیٹر بھیا جی نے سکھایا ہو گا، وہی ایڈیٹر بھیا جنہیں دنیا اختر عباس کے نام سے جانتی ہے ۔معلوم ہوتا ہے بھیا جی نے رضوان کو اپنی غلطیوں کو ”اوون” کرنا بھی سکھایا ہوگا یہ ٹھیک وہی سبق ہے جو اس عاجز نے اپنے بھیا سے سیکھا۔ابھی تک نہیں جان سکا کہ رضوان نے تحریر کے میدان میں یہ راستہ کیوں چنا،وہ چاہتا تو سیاست کی پکی پکائی کھیر پر اپنی ”کالم نگاری” کی دوکان چمکا سکتا تھا، اس کی آنکھوں میں کامیابی کی چمک اسے عام نوجوانوں سے ممتاز کرتی ہے۔
First Love
لگتا ہے یہ کچھ بدلنا چاہتا ہے،یہ زندگیوں میں تبدیلی لاناچاہتا ہے ،یہ مایوسی میں گھرے لوگوں کی امید کی راہ دکھانا چاہتا ہے،یہ اندھیروںمیں جگنو بننا چاہتا ہے،یہ لوگوں کو یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ کچھ نہیں سے سب کچھ ممکن ہے۔مجھے یقین ہے کہ رضوان یہ سب کچھ کر گزرے گا کیونکہ آپ وہی بن جاتے ہو جو آپ بننا چاہتے ہو۔ہم بھی عجیب لوگ ہیں دن رات دوسروں کے عیب تلاش کرنے اور کوسنے میں ضائع کردیتے ہیں ایسے میں کسی کو کامیاب ہوتا دیکھ کردل جلاتے ہیں، اگر یہی وقت صحیح سمت میں محنت کرنے پر لگائیں تو کوئی رکاوٹ آپ کو کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی۔
ہمارے ہاں ایسے لوگ موجود ہیں، رضوان کا شمار ان نوجوانوں میں سے ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ نا امیدی اور مایوسی کی آندھیوں میں امید کے دیے روشن کر رہے ہیں۔یہ نوجوان جو لوگوں کے لیے کام کرنا چاہتا ہے اپنی پہلی کتاب کے ساتھ آپ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے ،اسے امید ہے کہ اس کی یہ کوشش رائیگاں نہیں جائے گی۔اگر آپ چاہتے ہیں یہ آئندہ بھی لوگوں کی امید بنتا رہے، ہر روز کسی کی بجھتی امید کو روشن کرتا رہے،کھلی آنکھوں سے دیکھے گئے خواب کی تعبیر کے لیے جدوجہد کرتا رہے، اس کی توانائیاں معاشرے میں تبدیلی کے لیے صرف ہوتی رہیں، تو آگے بڑھیے اس کاساتھ دیجیے ہو سکتا آپ کی یہ حوصلہ افزائی اسے بلندیوں کے آسمان پر لے جائے ۔پہلی کتاب ٹھیک پہلی محبت کی طرح ہوتی ہے ،مجھے یقین ہے آپ اس نوجوان کی پہلی محبت کے امتحان میں اسے ناکام نہیں ہونے دیں گے۔