صیہونی بربریت پر غزہ میں جہاں لاکھوں فلسطینی ماتم کناں ہیں وہیں ان کی گھٹی گھٹی سسکیاں عالمی اداروں میں بھی سنی جا سکتی ہیں ان ہی سسکیوں میں ایک آہ اقوام متحدہ میں فلسطین کے مستقل مندوب کی بھی تھی جو سلامتی کونسل کے اجلاس میں غزہ کی صورت حال بیان کرتے ہوئے رو دیئے۔عرب ویب سائٹ کے مطابق نیو یارک میں اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا اجلاس جاری تھا جس میں غزہ کی صورت حال پر غور کیا جا رہا تھا، اس دوران فلسطین کے مستقل مندوب ریاض منصور نے غزہ پر اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔
انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کو یہ کیسا حق ہے جس میں غزہ کے لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا ہے, بچوں اور خواتین پر بم برسائے جارہے ہیں۔غزہ کی صورت حال بیان کرتے ہوئے ریاض منصور فرط جذبات سے اس قدر مغلوب ہوگئے کہ انہیں اپنی تقریر کو ادھورا ہی چھوڑنا پڑ گیا۔غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور بربریت نے ایسی ایسی داستانیں رقم کی ہیں جو دیکھنے والوں اور سننے والوں کے رونگٹے کھڑے کردیتی ہیں۔غزہ کی بستی میں اسرائیلی درندگی کا شکار ہونے والا ایک بچہ ایسا بھی ہے جس کا پورا خاندان ہی موت کی نیند سلا دیا گیااور وہ معصوم بھری دنیا میں اکیلا رہ گیا۔ معصوم بچے نے مقامی رپورٹر کو خود پر بیتی وہ کہانی سنائی جس کو سن کر نرم دل تو کیا پتھر دل والا بھی پھوٹ پھوٹ کر روپڑے۔خون آلود اور پٹیوں میں لپٹے خوبصورت چہرے والے بچہ نے بتایا کہ اسے اسرائیلی درندوں نے مارا، اس پر میزائل داغے۔یہ کچھ دیر پہلے اپنی ماں کیساتھ تھا، اپنے بھائیوں اسین اور محمد کیساتھ تھا۔صحافی نے پوچھا اب تہماری ماں کہاں،روہانسی آواز میں جواب دیتا ہے مرگئی۔
اگلا سوال تھا، بھائی اسین کہاں ہے ، جواب آیا وہ بھی مرگیا۔آخری سوال تھا دوسرا بھائی محمد کہاں ہے، تکلیف دکھ اور آنسووں سے بھرا جواب آیا وہ بھی مرگیا۔اس ننھے جگر گوشے کا سب کچھ اجڑ گیا۔ صحافی کی آواز بھی بھرا گئی اور معصوم کو اتنا ہی کہ پایا کہ بیٹا پڑھو ”حسبی اللہ و نعم الوکیل”۔ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوان نے غزہ میں جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلیوں نے ہٹلر کی بربریت کو مات دے دی۔ صہیونی ریاست میں کچھ لوگوں کی ذہنیت نازی رہنما ایڈولف ہٹلر سے ملتی ہے۔ اسرائیلیوں کا کوئی ضمیر، غیرت یا خودداری نہیں ہے وہ ہٹلر پر صبح شام لعن طعن کرتے ہیں مگر خود انہوں نے ہٹلر کی بربریت کو بھی مات دے دی ہے،اسرائیلی حملوں پر امریکا کیسے آنکھیں بندکرسکتا ہے، سلامتی کونسل کے رکن کی حیثیت سے اسے مناسب اقدام کرنا چاہیے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جاری بمباری سے چھ سو سے زائد فلسطینی جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ ہر آنے والے دن غاصب اسرائیلی فورسز کی جارحیت بڑھتی جا رہی ہے مگر امریکہ و یورپ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ فاسفورس بموں کا استعمال جنگی جرم اور بدترین دہشت گردی ہے۔ مہلک ہتھیاروں سے بچوں’ عورتوں اور نوجوانوں کی نعشیں مسخ ہو رہی ہیں اور مسلم حکمرانوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم حکمران غزہ پر جاری اسرائیلی مظالم روکنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔ امریکہ نے اسرائیل کو قتل عام’ فساد اور مسلمانوں کو تباہ کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ حکومت پاکستان او آئی سی اجلاس بلوانے میں کردار ادا کرے۔ مسلم ممالک پر مشتمل مضبوط دفاعی اتحاد بنایا جائے۔ اسی طرح اپنی اسلامی یونین بنائی جائے اور اپنی الگ اقوام متحدہ اور معاشی و دفاعی نظام تشکیل دیئے جائیں۔ پاکستان کے سوئے ہوئے حکمران فلسطین میں قتل عام کو روکنے کیلئے جرات اور غیرتمندی کا مظاہرہ کریں’ وزیراعظم نواز شریف کو چاہئے کہ وہ تمام اسلامی ممالک کے راہنماؤں سے رابطہ کریں۔ فلسطین میں نہتے مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے اور کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔فلسطین کے مسلمان اس وقت تمام عالم اسلام کی طرف مدد اور تعاون کیلئے دیکھ رہے ہیں لیکن فلسطینیوں کی لاشوں کے ڈھیر پر تمام عالم اسلام اور او آئی سی چپ ہے۔ اسرائیل کا فلسطینیوں کیخلاف موت اورخون کا کھیل پندرہویں روز میں داخل ہوگیا۔ غزہ میں پانی کا بحران شدید تر ہے جبکہ مرنے والوں کی تعداد چھ سو سے زیادہ ہوگئی ہے۔
تازہ حملے میں ستر مقامات کو نشانہ بنایا گیا جس میں پانچ مساجد اور اسٹیڈیم بھی تباہ کردیے گئے۔غزہ میں ہر طرف ماتم ہی ماتم ہے، کہیں مائیں اپنے جگر گوشوں کی لاشوں پر بین کررہی ہیں تو کہیں کوئی بہن اپنے ماں جائے کے لاشے پر آنسو بہا رہی ہے۔ غزہ میں تو جنگ بندی کی باتیں ہورہی ہیں لیکن شائد ہی اس بات سے کوئی باخبر ہو کہ وہاں نوے فیصد لوگ پینے کے پانی سے محروم ہیں۔اسرائیل معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی کر نے کے لئے ہر طرح کے ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ شارپ نیڈلز سمیت فاسفورس بم بھی گرائے جارہے ہیں۔ ہزاروں لوگ زخمی ہیں، ڈاکٹرز نہیں، ایمبولینسس نہیں اور اسپتالوں کی حالت بھی بمباری کے باعث مخدوش ہوگئی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے تازہ حملے میں ابو جام خاندان کے چھبیس افراد شہید کردیے گئے جن میں سے اٹھارہ بچے تھے۔دوسری جانب حماس کی جانب سے حملوں میں دو امریکی فوجیوں سمیت اٹھائیس صیہونی فوجی مارے گئے جن کی ہلاکت کی اسرائیل نے بھی تصدیق کردی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے غزہ میں تعمیر نو کے لئے چار کروڑ دس لاکھ ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے۔ ترکی نے فلسطینیوں کی بڑی تعداد میں اموات پر ملک بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ حماس کے رہنما اسماعیل ھانیہ نے کہا ہے کہ اسرائیل نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ امت مسلمہ کا دشمن ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں معصوم بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا اور بربریت کی مثال قائم کر دی۔ اسرائیل نے نہتے لوگوں پر بمباری کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ امت مسلمہ کا دشمن ہے دنیا اسرائیلی جارحیت کو مانیٹر کرے اسرائیل کے ساتھ جھڑپوں کا مقصد مقبوضہ علاقہ کا محاصرہ ختم کرانا ہے فلسطین کی آزادی تک لڑائی جاری رہے گی۔ فسلطینی عوام نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اسرائیل سے ڈرنے والے نہیں ہیں اور مزید جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی کبھی دریغ نہیں کریں گے۔ اب جو بھی بات ہو گی وہ گزر گاہوں کی دوبارہ بحالی کے بعد ہو گی غزہ کے شہریوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے خون اور ہمت سے محاصرہ ختم کرائیں گے جنگ بندی کے لئے غیر مشروط مصری تجویز کو مسترد کرتے رہیں گے۔ اسرائیل نے مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں کے نماز ادا کرنے پر بھی پابندی لگا دی۔
Ban Ki Moon
رمضان کا آخری عشرہ اور قبلہ اول میں نماز کی ادائیگی ہر مسلمان کی خواہش ہوسکتی ہے لیکن اسرائیل نے قبلہ اول کے دروازے فلسطینیوں پر بند کردیئے ہیں۔ رمضان کے آخری عشرے میں قبلہ اول میں فلسطینیوں کی آمد میں اضافہ ہو جاتا ہے، اسرائیلی پابندی کے باعث فلسطینیوں نے نماز فجر قبلہ اول کے بیرونی راستوں پر ادا کی۔ قبلہ اول میں داخلے سے روکنے پر مسلمانوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان تلخ کلامی کے واقعات بھی رونما ہوئے۔پندرہ روز بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون جنگ بندی کرانے آئے تو سیدھے اسرائیل پہنچے جہاں وہ مظلوم فلسطینیوں کے بجائے اسرائیل کے دکھوں کا رونا روتے رہے۔ پندرہ روز تک اسرائیل نہتے فلسطینیوں کے خلاف وحشت اور بربریت کا مظاہرہ کرتا رہا۔
اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں نے غزہ کے کونے کونے میں تباہی مچا دی۔ سیکڑوں فلسطینی شہید تو ہزاروں زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون بیان پر بیان داغتے رہے۔ اسرائیلی مظالم انتہاء تک پہنچے تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ہوش آیا۔ بان کی مون بھی بھاگم بھاگ تل ابیب پہنچ گئے لیکن وہاں جا کر بھی بان کی مون کے منہ سے اسرائیلی وحشت اور بربریت کے خلاف ایک جملہ نہ نکلا۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے سامنے وہ اسرائیلی مظالم کی مذمت کیا کرتے بلکہ الٹا حماس کے راکٹ حملوں کو کوستے رہے۔ بان کی مون امن کرانے آئے ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہوتا وہ انصاف اور حق کی بات کرکے سچ کاعلم بھی بلند کر جاتے۔