پہلی بارش سے کراچی کیوں اور کیسے ڈوبا…؟

Karachi Rain

Karachi Rain

کراچی میں ہفتے کی صبح شروع ہونے والی مون سون کی پہلی موسلا دھار بارش نے شہر قائد میں نظام ِ زندگی مفلوج کر کے رکھ دیا ہے، سڑکیں، گلیاں اور شاہراہیں ندی نالوں میں تبدیل ہو گئے ہیں، انڈر پاسز تلاب بن گئے ہیں، گٹراُبل پڑے ہیں، سڑکوں پر کچرے کے انبار لگ گئے ہیں ،یوں دونوں( ہفتے اور اتوار ) کی بارشوں کے دوران شہر کے مختلف مقامات پر کرنٹ لگنے، ڈوبنے اور مکانات کی چھتیں گرنے کے واقعات میں بچوں اور خواتین سمیت 30 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں، ملیر ندی اور لیاری ندی میں شدید طغیانی کے باعث اطراف میں قائم مکانات کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں، کورنگی کراسنگ ندی میں شدید طغیانی کے باعث کورنگی اور لانڈھی کو صدر سے ملانے والی سڑک بند کر دی گئی ہے، جس کی وجہ کورنگی اور لانڈھی کا صدر سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے، شہر میں ایمر جنسی نافذ کر دی گئی ہے، ایڈمنسٹر برطرف، شہر کا انتظام فوج نے سنبھال لیا ہے،کے ای ایس سی کے کم و بیش 500 فیڈر بند ہونے سے کراچی میں اندھیروں کا راج قائم ہو گیا۔

اِس صورتحال میں شہر کراچی کا ہر باسی ذہنی و جسمانی اذیت میں مبتلا ہے، یوں مون سون کی پہلی موسلادھار بارش نے سندھ حکومت کے انتظامات اور اقدامات قلی کھول دی ہے، کہ آج اِس کے پاس عوام کو مطمئن کرنے کے لئے کوئی جواب نہیں ہے کہ وہ پریشان حال عوام کا سامنا ہی کر سکے، آج کیوں کہ سندھ میں جس جماعت کی حکومت ہے اِس نے اپنے پچھلے دورِ حکومت میں بلدیاتی نظام پر اپنی سیاست چمکائے رکھی، یوں اِس حکومت نے کراچی سمیت سندھ بھر میں بلدیاتی انتخابات نہ ہونے دیا( اور تاحال ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اپنے دوسرے دورِ حکومت میں بھی کراچی اور سندھ میں شائد بلدیاتی انتخابات پر سیاست جاری رکھے اور یہ معاملہ اگلے پانچ سال تک بھی گھٹائی میں پڑا رہے)، یہی وہ حکومت ہے جو اپنے پہلے دورِ حکومت میں شہر کراچی سے تعلق رکھنے والی اپنی ساتھی جماعت کو بلدیاتی انتخابات کرانے اور پھر نہ کرانے کا جھانسہ دے کر اپنی مدت پوری کر کے گزر گئی۔

اگر موجودہ سندھ حکومت اپنے پہلے دورِ اقتدار میں کسی کے بہکاوے میں نہیں آتی اور اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے مشوروں اور اِس کے دیئے گئے نکات پر عمل کرتے ہوئے کراچی اور سندھ میں باہمی صلاح و مشوروں سے اپنی مرضی و منشاکے عین مطابق بلدیاتی انتخابات کروا دیتی تو شائد سندھ، حیدرآباد اور کراچی میں یہ صورتحال تو پیدانہ ہوتی جیسی اِن دنوں سندھ، حیدرآباد اور کراچی میں ہونے والی مون سون کی پہلی موسلادھار پانی کے پیدا انتہائی گھمبیر صورت حال پیدا ہو گئی ہے، آج جواِس کے بس میں بھی نہیں ہے۔ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ شہر کراچی میں گزشتہ ہفتے کے روز سے شروع ہونے والی دو روزہ موسلادھار بارش کے دو بالٹی پانی نے نصب سے زائد شہرِ کراچی کو ڈبو کر رکھ دیاہے اور اِسی بارش کے ہی بہانے محکمہ کے ای ایس سی کے پانچ سو سے زائد فیڈر بند ہونے سے اندھیروں نے بھی شہر کراچی کو پریشانیوں اور مسائل کی آغوش میں ایسے دپوچ لے لیا ہے کہ اِس شہر کے گرمی اور بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے ستائے شہری جو اللہ سے بارش کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے آج یہی بارش کو رکنے کی دعائیں کرتے نہیں تھک رہے ہیں، کیوں کہ آج شہرِ کراچی کے باسیوں کے لئے بارش رحمت کے بجائے زحمت بن گئے ہے۔

Load Shedding

Load Shedding

شہرِ کراچی جو دنیا کا بارھواں بڑا انٹرنیشنل اور پاکستان میں مرکزی صنعت و تجارت اور اقتصادی و معاشی حب کا درجہ رکھتا ہے، اِس شہر میں پہلے روز صرف چند گھنٹوں کی ہونے والی موسلادھار بارش کے دوبالٹی پانی نے شہر کا نصف سے زائد حصہ ڈوب دیا اور اِس کا نظام ِ زندگی بری طرح مفلوج ہو کر رکھ دیا ہے اگرچہ وزیراعظم نواز شریف شہر کراچی سمیت مُلک بھر میں ہونے والی بارشوں اور سیلاب کی صورت حال سے پل پل باخبر ہیں، اور وفاق اور صوبائی سطح پر حکومتوں سے مسلسل رابطے میں ہیں اور بارشوں اور سیلابوں سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لئے بروقت اقدامات اور انتظامات کے لئے احکامات بھی جاری کررہے ہیں، جو کہ وزیراعظم نوازشریف کا قابل تعریف اقدام ہے، جہاں کراچی سمیت مُلک بھر میں فوج اور سماجی تنظیموں کے رضاکار اور صوبائی حکومتیں اپنی مشینری کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر بارش اور سیلاب کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے تو متحرک ہیں مگر میں بالخصوص کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے حوالے سے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آج سندھ، حیدرآباد اور کراچی میں مون سون کی پہلی بارش کے بعد جیسی گھمبیر صورت حال پیدا ہو گئی ہے، کہ آج اِس سے بروقت نمٹنا سندھ حکومت اور حیدرآباد اور کراچی کی انتظامیہ کو مشکل ہو گیا ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ ماضی میں کراچی اور سندھ میں یوسیز کی سطح کے بلدیاتی انتخابات کرا دیئے جاتے تو کم از کم اِس طرح کراچی، حیدرآباد اور سندھ کی انتظامیہ بھی ٹھیک طرح سے کام کر رہی ہوتی اور یہ کچھ بھی نہ ہوتا جیسا آج ہو گیا ہے۔ مگر ابھی وقت نہیں گزراہے موجودہ حکومت یوسیز کی سطح پر یا جیسا بھی چاہئے جلد از جلد سندھ، حیدرآباد اور کراچی میں بلدیاتی انتخابات کردے تاکہ آئندہ سال مون سون کے آنے سے قبل بلدیاتی اداروں کا کوئی سیٹ اَپ سامنے آ جائے تاکہ وہ آنے مون سون سے متحرک ہو کر نمٹ سکیں۔

Allha

Allha

بہر حال آج یقینایہ سیاسی بازی گروں کے لئے منہ چھپانے اور بغلیں جھانکنے کا مقام ہی تو ہے کہ اِن کی سیاسی چکمہ گیری کی وجہ سے دنیا کا بارھواں انٹرنیشنل اور پاکستان میں اقتصادی اور معاشی حب کا درجہ رکھنے والا شہرِ کراچی صرف دونوں کی چند گھنٹوں کی بارش سے دو قطرے پانی میں نصب سے زیادہ ڈوب گیا ہے۔

وہ بارش جو اللہ کی خاص نعمتوں میں سے ایک نعمت سمجھی جاتی ہے، مگر آج یہی بارش میرے شہرِ کراچی میں رحمت کے بجائے اِس سال اپنی خصوصیات کے اُلٹ ثابت ہوئی ہے،(ماضی میں جب یوسیز کی سطح کا بلدیاتی نظام قائم تھا اور کراچی کے ناظم مصطفی کمال تھے تو ایسا نہیں ہوا تھا کہ کبھی شدید ترین بارشوں میں بھی شہر کراچی ڈوب گیا ہو) وہ شہرِ کراچی جو اپنے نام اور مقام کے لحاظ سے بین الاقوامی سطح پر اپنا ایک منفرد پہنچان رکھتا ہے۔ آج یہ شہر جس خستہ حالی اور تباہی کا منظر پیش کر رہا اِس کے ذمہ دار حکومت، انتظامیہ اور وہ شہری ادارے ہیں جنہوں نے اِس شہر کی بہتر کی جانب توجہ دینے کے بجائے، اِس شہر کے بلدیاتی اداروں کے فنڈز کو روکنے اور جو ملا اِسے کسی دوسرے مصرف کے لئے استعمال کیا اور وہ وزراء ہیں جنہوں نے شہر اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں روکنے اور اِنہیں پریشانی کرنے کو تو اپنی شان اور آن کا حصہ بنائے رکھا مگر اداروں کی بہتری اور مزدوروں کی خوشحالی کی جانب سنجیدگی سے اقدامات نہیں کئے یہی وجہ ہے کہ اِس سال مون سون کی پہلی ہی چند گھنٹوں کی موسلادھار بارش کے دو بالٹی پانی میں شہر کراچی سمیت حیدرآباد بھی ڈوب گیا ہے۔

تحریر : محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com