تحریر: سجاد گل نوازشریف صاحب نے کہا ہے ،یا یوں کہہ لیںان کے منہ سے نکل گیا ہے”کہاں آلو ٨٠۔ ٨٥ روپے فی کلو ہوتے تھے اورہمارے دورِ حکومت میں’ ‘آلو پانچ روپے کلو”میں نے یہ سنا تو سوچنے لگا آخری دفعہ آلو کب لئے تھے،یاد آیا پرسوں ہی تو آلو پالک کھائی، تھوڑا اور سوچا تو ریٹ بھی یاد آگیا ١٦ روپے کلو،١٦ اور ٥ میں کافی فرق تھا لہذا پہلے توبشیرے پر بدظن ہوا جس نے ١٦ روپے کلو آلو دئیے تھے،مگر دماغ کی فائلوں کو الٹ پلٹ کر بشیرے کا پچھلا ریکارڈ چیک کیا تو وہ شیشے کی طرح صاف و شفاف نکلا،کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ اس نے گلے سڑے ٹماٹر دے دئیے ہو ںیا ریٹ میں کوئی ہیر پھیر کیاہو،اور ادھربھی معتبر و محترم کا بیان ”آلو پانچ روپے کلو”بر حال کانوں پر مفلر لپیٹا اور آلو کی چھان بین کے لئے بشیرے کی ہٹی کا رخ کیا۔
اسلام علیکم،،، بھائی بشیرے کیا حال ہے؟…واعلیکم اسلام پا جی …تسی سنائو؟…یار آلو کس طرح ہیں؟…او ہی پرسوں آلے ریٹ ١٦ روپے کلو…یار نواز شریف تو کہہ رہا ہے آلو پانچ روپے کلو ہیں…کیڑا نواز شریف ساڈا بادشاہ؟… ہاں یار وہی…ہاہاہا چھوڑو پاجی اس چھلے ہوئے آلودے سرآلے نو…بندر کیا جانے ادرک کا سواد ..اسے کیا پتہ آلو کے ریٹ ،اس نے کبھی لئے ہوں تو ریٹ پتا ہو،میں تو منڈی سے ١٢ روپے کلو کے حساب سے لایا ہوں…جھوٹے پہ لعنت ،بچوں کو حرام کبھی نہیں کھلائیں گے پا جی ۔
ALLAH
بشیرے سے گفت و شنید کے بعد میں ایک دفعہ بھر سوچ کے صحرا میں سفر کرنے لگا،اللہ خیر کرے بشیرے کی تو تمام فائلیں چیک کر چکا مگر نواز شریف کا تو میرے دماغی دفتر سے کوئی لین دین بھی نہیں تھااسے کیسے چیک کرتا،پھر دماغ پر پورے ایک من کا گولہ لگا ،کہ اگر وزیراعظم کا عوام سے لین دین نہیں ہو گا تو کس سے ہوگا،”آلو پانچ روپے کلو” کا کانٹا میرے دماغ میں چبھے جارہا تھا،اگر بشیرے کی یہ بات سچ بھی مان لی جائے کہ نواز شریف نے آلو لئے ہی کب ہیں تو بھی مسئلہ حل طلب ہی تھا،چیز نہ خریدنا اور بات ہے اور چیز کے بارے میں لاعلمی اور بات ،میں نے سونا زندگی میں پہلی بار اپنی شادی میں خریدا تھا اور آگے کبھی لینے کے دوردور تک کوئی آثارات بھی موجود نہیں ،مگر اسکا یہ مطلب قطعی نہیں کہ مجھے سونے کی قیمت پتا ہی نہ ہو،عام طور پر لوگوں کے پاس موبائل ٦۔٧ ہزار والا ہی ہو تا ہے، مگر IPhon-6 کی قیمت کا اندازہ تقریباََ سب ہی کو ہوتا ہے،،
اسی طرح ہو سکتا ہے کسی شخص کے پاس میری طرح موٹر سائیکل ہو مگر یہ لازمی نہیں کے اسے BMW کار کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہ ہو، میں نہیں کہتا کہ اس ملک کا وزیراعظم ریڑی پرخود جا کر سوا دو کلو آلو لے کر آلو والے پڑاٹھے بھی خود بنائے، ،،مگر،،،صاحبِ اقتدار کو روزمرہ کی اشیاء کے دام بائو حفظ ہونے چاہئے،مگر یہاں معاملہ اسکے بالکل بر عکس نکلا،سوال پر حمزہ شہباز نے آلو کے ریٹ سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ عورتوں کو یا د ہوتے ہیں ،جناب میں میں آپ کے علم میں اضافہ کرتے بتا دوں کہ پاکستانی عوام کو ١٠٠ فیصد یقین ہے کہ آپ کی توعورتوں کو بھی آلو کے بائو پتا نہیں ہوں گے ،یہ ہماری غریب عورتیں ہی ہیں جو آلو لیتے ہوئے ٢۔٢ روپے کے لئے ریڑی والے سے بحث و مباحثہ کرتی ہیں او ر انہیں آلو ٹماٹر کے بائوفر فر یاد ہوتے ہیں، اورنواز شریف نے جو ریٹ بتائے تو عید میں ماتم کا سماں کر دیا،میرے خیال میں پورا پاکستان ہی ”آلو پانچ روپے کلو” سن کر میری طرح جھوم اٹھا ہو گا،مگر اس عید میں ماتم کا سماں تب پیدا ہوا جب ”آلو پانچ روپے کلو” کی تحقیق ہوئی،ہمارے اوپر مسلط حکمران اس چیز سے یکسر لاعلم ہو جائیں کہ عوام الناس کیا چیز کس مول پر خرید رہے ہیں ،تو وہ عوامی مسائل کو حل کیسے کریں گے؟دوسری طرف یہ نعرے،روٹی کپڑا اور مکان،غریب کے دل کی دھڑکن فلاں شریف،مظلوموں کی ماں ،فلاں لیگ ،ان نغموں اور ان نعروں سے،ان وعدوں اور ان دعووں سے گِن آتی ہے،وی ،آئی ،پی پروٹوکول میں ہر آرائش و آسائش سے مزین زندگی گزارنے والے کیا جانیں کہ غربت کس روگ کا نام ہے۔
تم کیا جانو مرضِ بھوک کیا بلا ہے اچھے بھلے مسلمان کو کافر بنا دیتی ہے
گرمیوں میں ٹھنڈی اور سردیوں میں گرم گاڑیوں میں سفر کرنے والے کیا جانیں کہ غریب کی زندگی کا سفر کن کرب و مصائب سے دوچار ہوتا ہے،١٠ ۔١٠ مرلے کا واش روم استعمال کرنے والے کیا جانیں کہ غریب کی جھومپڑی میں چراغ بھی جلتا ہے یا نہیں۔
تم تو روشن کرنے نکلے تھے سارے جہان کو جہاں کی خبر نہیں، مرے گھرمیں آج بھی اندھیراہے
AC کی ٹھنڈک میں بیٹھ کر منرل واٹر پی کر تھر پار کر پر بیان دینے والے کیا جانیں کہ بھوک اور پیاس سے مرنا کس بلا کا نام ہے،اپنی نواسی کی شادی پر ہندوستان کے وزیراعظم تک کو مدعو کرنے والوں کو کیا خبر کہ چھ چھ بچیوں کا واحد سہارا انکی ماںدو وقت کی روٹی کے لئے کن کن مشکلات سے گزرتی ہے،قرض اتارو ملک سنوارو کے خواب دیکھانے والے اس بات سے ناآشنا ہیں کہ غریب آدمی خواب دیکھنے سے پہلے بھی دس دفعہ سوچتا ہے کہ اسکا یہ خواب اسی زندگی میں شرمندہِ تعبیر بھی ہو گا یا نہیں۔
ہم نے خواب دیکھنے چھوڑ دئیے ،اتنا سوچ کر جن کی تعبیر نہ ہو ،ہم انہیں خواب نہیں مانتے
Pakistan
لیپ ٹاپ تقسیم کر کے پوز بنانے والے کیا جانیں کہ مصطفیٰ خان قہوہ فروخت کر کے اپنے سکول کی فیس ادا کرتا ہے،لاہور کو پیرس بنانے والوں کی آنکھوں سے وہ علاقے اوجھل ہی رہتے ہیں ،جہاں آج بھی گاڑی نام کی کوئی چیز نہیں جاتی ،وہ لوگ اکیسویں صدی میں پہنچ کر بھی آدم و حوا کے زمانے کی طرح گدھوں اور خچروں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں،جعلی ڈگریوں کے بل بوتے پر پالیمنٹ کی کرسیوں پربیٹھ کر ،پڑھا لکھا پنجاب اورہنر مند پاکستان کی سریں باندھنے والے کیا خبر رکھیں کہ ماسڑاور گریجویشن کئے نوجوان بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ ہو کر برگر اور چنے کی ریڑیاں لگانے پر مجبور ہیں ،غربت کو ختم کرنے کا ڈنڈورہ پیٹنے والے کیا جانے کہ اس ملک میں ٣ کروڑ لوگ سطح غربت سے نیچے اوکھی سوکھی زندگی گزار کر زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں،مظلوموں کا سہارا بنے کے افسانے سنانے والو ںکو اس سے کیا غرض کہ غریب اور مظلوم آدمی کی اس ملک میں FIR تک کاٹنا گوارہ نہیں کی جاتی،اور آلوپانچ روپے کلو کاڈھول تھاپنے والو سنو…اگر اس ملک میں آلو پانچ روپے کلو ہوتے تو کوئی بنت آدم دووقت کی روٹی کے لئے جسم فروشی کا فیصلہ کر کے کسی دلال کے کوٹھے پر نہ جا بیٹھتی۔
اگر زندگی اسی عذاب ِمسلسل کا نام ہے تومحشر کا فلسفہ سمجھا دیجیئے آپ مجھے
آلو پانچ روپے کلو والے صاحب ۔۔۔شیر خدا حضرت علی کا وہ انمول موتیوں کا قول بھی ہمیشہ اپنے پلے باندھ کر رکھا کریں کہ” کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا نہیں” ہم جانتے ہیں کہ آپکی حکومت کے منصوبے قابلِ تعریف ہیں اور ہم بھی تعریف کرنے میں بغض کی روش اختیار کرنے والوں میں سے نہیں ہیں ،،،مگر خدارا ۔۔ میڑو اور ٹرین منصوبوں اور دیگر انفراسٹریکچر منصوبوں کی طرح غریب کے مسائل کو بھی اپنی اولین ترجیحات میں شامل کریں،غریب عوام کے دکھ درد،کرب و الم،مصائب و تکالیف اور مسائل سے چشم پوشی کی روش کو خیر آباد کہہ دیں،اگر آپ نے اپنی اولین تر جیحات میں غریب عوام کے مسائل کو رکھ لیا تو عوامِ پاکستان پورے وثوق وامید کیساتھ کہتی ہے کہ پھر کبھی آپ کے منہ سے یہ نہیں نکلے گا ‘آلو پانچ روپے کلو”
Sajjad Gul
تحریر: سجاد گل dardejahansg@gmail.com Phon# +92-316-2000009