امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکا نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ جوہری جنگ پر فتح حاصل نہیں کی جا سکتی اور ایسی ہلاکت خیز جنگ کبھی شروع بھی نہیں ہونی چاہیے۔
دنیا کی پانچ جوہری طاقتوں نے تین دسمبر پیر کے روز جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کا عہد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جوہری جنگ ہرگز کوئی متبادل نہیں ہے۔ چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکا نے مشترکہ طور پر جاری کردہ اپنے ایک غیر معمولی بیان میں کہا، ”ہم اس بات میں پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ایسے ہتھیاروں کے مزید پھیلاؤ کو روکنا بہت ضروری ہے۔”
بیان میں مزید کہا گیا، ”جوہری جنگ جیتی نہیں جا سکتی اور کبھی لڑی بھی نہیں جانی چاہیے۔” پانچوں عالمی طاقتوں نے بیان میں اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ جب تک، ”جوہری ہتھیار موجود رہیں گے اس وقت تک وہ بس، دفاعی مقاصد کو پورا کرنے، جارحیت اور جنگ کو روکنے کے لیے ہی ہوں گے۔”
پانچوں عالمی طاقتوں کی توقعات کیا ہیں؟ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان (پی فائیو) نے، ”جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کو جلد از جلد ختم کرنے اور جوہری تخفیف اسلحہ سے متعلق موثر اقدامات پر نیک نیتی کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔” سبھی نے سخت اور موثر بین الاقوامی کنٹرول کے تحت عمومی اور مکمل تخفیف اسلحہ کے معاہدے پر بھی اتفاق کیا۔”
جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کے تازہ ترین جائزے سے پہلے یہ مشترکہ بیان جاری کیا گیا ہے۔ عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے متعلق دسواں جائزہ اجلاس اسی ماہ نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ہونا تھا، جسے اب اس برس کے اواخر تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے زنہوا نے اپنے وزیر خارجہ ما زاؤ سو کے حوالے سے کہا کہ مشترکہ معاہدہ، ”باہمی اعتماد کو بڑھانے اور بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان مسابقہ آرائی کو، ہم آہنگی اور تعاون سے بدلنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔”
روس کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا، ”ہمیں امید ہے کہ بین الاقوامی سلامتی کی موجودہ مشکل صورت حال میں اس طرح کے سیاسی بیان کی منظوری سے عالمی کشیدگی کی سطح کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔”
این پی ٹی کیا ہے؟ جوہری عدم پھیلاؤ کا معاہدہ (این پی ٹی) ایک ایسا بین الاقوامی معاہدہ ہے جو، مکمل طور پر جوہری تخفیف اسلحے کے حصول کی کوشش کے ساتھ ہی، جوہری ہتھیاروں اور ہتھیاروں سے متعلق ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ تاہم یہ پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کے استعمال کے حق کی حمایت بھی کرتا ہے۔
سن 1968 میں معاہدے کو دستخط کے لیے جاری کیے جانے کے بعد یہ 1970 سے نافذ العمل ہوا۔ اب تک مجموعی طور پر 191 ممالک نے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جن میں پانچ تسلیم شدہ جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک بھی شامل ہیں۔
تخفیف اسلحہ سے متعلق اقوام متحدہ کے دفتر کے مطابق ہتھیاروں کی حد بندی سے متعلق کسی دوسرے معاہدے کے مقابلے میں زیادہ تر ممالک نے این پی ٹی معاہدے کی توثیق کی ہے، جو اس کی اہمیت کا واضح ثبوت ہے۔
جنوبی افریقہ دنیا کا ایسا واحد ملک ہے جس نے اپنے جوہری ہتھیار تیار کیے اور پھر ان جوہری ہتھیاروں کو مکمل طور پر تلف بھی کر دیا۔ شمالی کوریا ایسا واحد ملک ہے جس نے اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی۔
پی فائیو کے درمیان کشیدگی جوہری ہتھیاروں سے متعلق یہ بیان عالمی طاقتوں کے درمیان تناؤ کے بڑھتے ہوئے ماحول میں آیا ہے۔ یوکرائن کے ساتھ روس کی سرحد پر فوجی ساز و سامان کی تعیناتی اور حملے کی تشویش کے ماحول میں واشنگٹن نے ماسکو کے خلاف پابندیوں کے لیے خبردار کیا ہے۔ امریکا نے کہا ہے کہ اگر روس نے یوکرائن پر مزید حملہ کیا تو وہ فیصلہ کن جواب دے گا۔
تائیوان کی حیثیت اور بحرالکاہل میں فوجی سرگرمیوں میں اضافے کے سبب بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔ دسمبر میں امریکا اور یورپی یونین، دونوں نے بیجنگ پر خطے میں امن و سلامتی کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا تھا۔
چین تائیوان کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ طاقت کے استعمال ذریعے بھی جزیرے کو اپنے قبضے میں لے سکتا ہے۔