لاہور (جیوڈیسک) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پانچ سالہ کمسن بچی کے ریپ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے پولیس کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے سماعت کو غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دیا ہے۔
جمعرات کی صبح جب سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو پنجاب پولیس کی طرف سے عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی۔ پولیس کی رپورٹ میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ریپ کیس میں اب تک چار سو سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، لیکن عدم ثبوتوں کی وجہ سے انہیں رہا کرنا پڑا۔
عدالت نے رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ پولیس اگلی سماعت پر تحریری طور پر کارکردگی رپورٹ پیش کرے، جبکہ کیس کی مزید کارروائی غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال 13 دسمبر کو چند نامعلوم افراد نے ایک پانچ سالہ بچی کا ریپ کرنے کے بعد اسے لاہور کے سرگنگا رام ہسپتال کے باہر پھینک کر فرار ہو گئے تھے۔
اس واقعہ کے بعد یہ متاثرہ بچی ایک مقامی چوکیدار کو ملی جس نے اسے زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا تھا۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں نے بچی کے طبی معائنے کے بعد اس بات کی تصدیق ہوئی کہ بچی کو ایک گھنٹے سے زائد وقت تک ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس واقعہ کی تفتیش کے لیے سینیئر اہلکاروں پر مشتمل پولیس ٹیم کی جانب سے متعدد افراد کو گرفتار کرکے ان کے بیانات کو قلمبند کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا، تاہم اس میں اب تک کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔
اس سلسلے پولیس خود اس متاثرہ بچی کا بیان بھی قلمبند کرچکی ہے جس کے مطابق تین نامعلوم افراد اسے ایک گاڑی میں بٹھا کر ایک خالی گھر میں لے کر گئے، جہاں پر اسے ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ خیال رہے کہ میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس واقعہ کا نوٹس لیا تھا۔