اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے جھوٹے مقدمات کے اندراج کی روک تھام، پولیس نظام میں موجود خامیاں دور کرنے اور بہتری سے متعلق تجاویز طلب کر لیں، جسٹس جواد ایس خواجہ کہتے ہیں انتہاء کی بے حسی ہے، لوگ کب تک برداشت کریں گے۔ پانچ سال سے بلدیاتی الیکشن کرانے کا کہہ رہے ہیں لیکن نہیں ہوئے۔
سپریم کورٹ میں جھوٹی ایف آئی آر کے انداراج اور پولیس کارکردگی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے موقع پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ حیدر علی اور عشرت بی بی پر جھوٹے پرچے درج ہوئے جو بعد میں خارج کیے گئے، یہ مذاق لاکھوں لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ اس مذاق کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ کار ہے یا نہیں۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پولیس کے غلط اقدام کی مانیٹرنگ کا کوئی نظام موجود نہیں۔ عدالتی معاون خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ پولیس قانون میں کرمنل جسٹس معاونتی کمیٹی نظام موجود ہے تاہم فعال نہیں ، بلدیاتی انتخابات کے قانون میں بھی مقامی سطح پر عوامی مشکلات کی دادرسی کے فورم رکھے گئے تھے لیکن بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے یہ فورم بھی غیر فعال ہو گئے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ کیا ہمارا آئین بے معنی اور ہم بے بس ہیں ، کیا لوگوں کے کوئی بنیادی حقوق نہیں ہیں ، پانچ سال سے بلدیاتی الیکشن کرانے کا کہہ رہے ہیں، الیکشن ہوئے نہ ہونگے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات ہماری خاطر نہیں کرانے ، بلدیاتی انتخابات آئین کے آرٹیکل 140 اے کا تقاضا ہے، حکومتیں بلدیاتی انتخابات کرانے کی پابند ہیں لیکن کرائے نہیں جاتے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جھوٹا پرچہ ثابت ہونے پر 182 کی کارروائی بھی نہیں ہوتی ، ریپ اور فوجداری کیسز میں کسی کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
سپریم کورٹ نے جھوٹے مقدمات کے اندراج کی روک تھام، پولیس نظام میں موجود خامیاں دور کرنے اور بہتری سے متعلق تجاویز طلب کر لیں۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ تجاویز کی تیاری میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔ کیس کی سماعت تین مارچ تک ملتوی کر دی گئی ہے۔