تحریر: امامہ عبداللہ میکن، سرگودھا ملک پاکستان میں یوم آزادی کی آمد آمد تھی اور اس کے استقبال کی بھی بھرپورتیاریاں جاری تھیں حسب روایت بڑے بڑے پرچم اور چھوٹی چھوٹی جھنڈیوں کے ساتھ گلی محلوں کو مزین کیا جا رہا تھا ضرورت کے مطابق لائٹس سے بھی مدد لی جارہی تھی اور اس کام میں شریک ہونے کے لئے عمر کی کوئی قید نہ تھی چونکہ ملک تو سب کاسانجھاہی ہواکرتاہے اور ہر ایک کا محبت کا اندازصرف جداہوتاہے اسی طرح کوئی کم محبت کرتاہے کوئی زیادہ لیکن ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ محب نظر آئے سو شہر کے اس مشہور محلے کے ننھے ننھے بچے بھی اپنی اپنی گلی کی سجاوٹ میں مگن تھے۔
احسن اس دفعہ ہم نے وکیع کوشکست دینی ہے۔ نعمان نے جوش سے احسن کو مخاطب کیا جو اس گروپ کا سربراہ تھا۔ ہاں،ہاں کیوں نہیں۔ احسن نے بھرپور تائید کی۔
وکیع ان کی مقابل گلی کے بچوں کاسربراہ تھا۔ پچھلی دفعہ اس کی سجاوٹ ان سے بہتر تھی جس پر ان بچوں نے انہیں نیچا دکھایا تھا اور اس دن کی سبکی وہ آج تک نہ بھلاسکے تھے۔
13اگست کی شام ڈھلتے ہی حسان نے خاموشی سے گھر کی سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھادئے اور ایک کونے میں کھڑاہوگیایہاں سے وہ دونوں گلیوں کو اچھی طرح دیکھ سکتاتھااور پھر اپنی تیز نگاہوں سے جلد ہی ا س نے نتیجہ اخذ کرلیااور تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگااور اگلے ہی لمحے وہ احسن کو اپنے تجزیے سے آگاہ کرنے لگا تقریباسب ہی چیزیں ملتی جلتی تھیں ۔
آئیڈیا! گروپ کا نمائندہ وقاص اچھلا۔ کیاہوا؟؟ یہاں گلی کے شروع میں برقی قمقموں اور جھنڈیوں سے خوبصورت استقبالیہ بناتے ہیں ۔ واو ¿۔۔۔گریٹ! سب نے اسے سراہا اور جلدی جلدی انہوں نے یہ بھی کر ڈالااور اس چیز کی خوبصورتی سے ان کی گلی سجاوٹ میں آگے بڑھ گئی اور ان کی جھنڈیوں کی تعداد بھی ان سے زیادہ ہوگئی تھی۔
رات کے بارہ بجتے ہی برقی قمقمے جل اٹھے ننھے منے بچے ہاتھوں میں جھنڈے تھامے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہئے گلیوں سے نکلنے لگے۔ ارے واہ آج تو احسن بھائی کی گلی زیادہ پیاری لگ رہی ہے۔بچوں کا ایک ٹولہ ان کی گلی کی تعریف کررہاتھا جس سے احسن نے کالر جھاڑے اور پھر انہوں نے اپنے مخالف وکیع کو چڑاناشروع کردیااور جلد ہی جنگ کا سا منظر بن گیا۔
پاس سے گزرتے ہوئے عبداللہ بھائی ٹھٹک کر رک گئے ۔ کیابات ہے بچو! کیوں لڑائی کررہے ہو۔جوابا ایک بچے نے ساری تفصیل کہہ دی۔ اوہ تویہ بات ہےادھر آو ¿ سب بچے۔انہوں نے شفقت سے سب بچوں کو ایک جگہ جمع کیا۔ آپ لوگوں نے یہ سب کیوں کیاہے۔انہوں نے بات کا آغاز سول کیا۔ بھیا ہمارا ملک بنا تھا نا۔اچھالیکن کس لئے بناتھا ہماراملک۔؟؟ تاکہ ہم ہنسی خوشی الگ رہ سکیں۔ تویہ کیا کررہے تھے آپ۔ وہوہ۔وہ بوکھلاگئے۔ دیکھو بیٹا 14اگست کو ہماراملک بنا تھا اور اسی دن کومنانے کے لئے آپ نے اتنا تکلف کیاہے جو صرف دکھاوا ہے نہ کہ محبت۔نننہیں بھیا ہم محبت کرتے ہیں۔ اگر آپ واقعی محبت کرتے ہیں توآپ کو صرف سجاوٹ کی خاطر اپنے بھائیوں سے جھگڑنے کی کیاضرورت ہوتی؟؟اب کی بار سب بچوں کے سر جھک گئے۔
اول تویہ چیز ضروری نہیں کہ آپ پیسوں کا ضیاع کرکے محبت کا ثبوت دے سکتے ہیں جب کے بعد یہی جھنڈیاں آپ کے پاو ¿ں تلے روندی جارہی ہوتی ہیں اور آپ کو کوئی خیال نہیں ہوتا کیونکہ آپ تو ایک ہی دن پرچم لگاکرملک کا حق اداکر چکے ہوتے ہیں۔ کیاہی بہتر ہوتاکہ آپ لوگ ان پیسوں کو جمع کر کے اپنے ملک کی بہتری کے لئے صرف کرتے ۔اوراس میں تو جھگڑنے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتاکہ میری جھنڈیوں کی تعداد زیادہ ہے یا آپ کی جب پر چم ہم سب کا ایک ہی ہے تو تعداد سے کیا فرق پڑتا ہے۔
آپ کا پرچم ایک جگہ جمع ہونے کی آپ کو دعوت دے رہاہے کہ جس ملک میں ایک ہوں اس ملک کے باسی بھی میرے سائے کے نیچے ایک ہی ہیں اور آپ جانتے ہوئے بھی اسے نظراندازکررہے ہیں پھر یہ دکھاواہ ہی توہے۔ عبداللہ بھائی کی باتوں سے وہ نادم ہوگئے۔ہمیں معاف کردیں بھیا۔ وہ بایک آواز میں بولے۔
چلو بچو! آج ہم ایک عہدکرتے ہیں کہ ہم اس سجاوٹ میں ہار جیت کی رسم کو ختم کریں گے۔ جی بھیاہم سب وعدہ کرتے ہیں۔ اور پھر بھیاایک لمحے کے لئے اپنے گھر کے اندر گئے اور لمحے سے پہلے ہی لوٹ آئے اور ان کے ہاتھ میں ایک بہت بڑاپرچم تھاجسے انہوں نے کھولااور سب بچوں کو آواز دی ۔آو ¿ بچواپنے ایک پرچم تلے! بھیا نے انہیں مسکراتے ہوئے بلایااور آن کی آن میں سب بچے خوشی خوشی اسے چھونے لگے۔ ادھر سے احسن آپ پکڑو اور ادھرسے وکیع آپ پکڑو۔انہوں نے ایک ایک کونہ ان ونوں کے ہاتھ میں تھمایااور سب بچے عبداللہ بھائی کے ساتھ مل کرایک آواز میں گنگنانے لگے۔ ”اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں“۔
آپ ادھر کیوں کھڑے ہیں۔ عبداللہ بھائی کی نظر اچانک ایک طرف کھڑے خاموش بچے پر پڑی۔ بھیایہ غیرمسلم ہے۔ اسی لئے ۔ بھیا انہوں نے مجھے اپنے ساتھ شامل نہیں کیا ، وہ روہانسی آوازمیں بولا۔بری بات ادھرآو ¿ ۔ یہ دیکھوسفید رنگ آپ کی حمایت کرتاہے یہ ملک آپ کو بھی امان دے رہاہے اور آپ مسلم بچوں کویہ درس دیتاہے کہ ان سے بھی برابری کاسلوک اور محبت کریں۔وہ فرط جذبات سے بولے اوراس ننھے بچے نے جھٹ سے ایک جھنڈی ہاتھ میں تھام لی اور ہنستے ہوئے خوشی سے بولا۔اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں“۔