تحریر: پروفیسررفعت مظہر ہم تو سمجھتے تھے کہ وہ اکھڑ ،ضدّی ،انا پرست اور نرگسیت کا شکار ہے۔ یہ وہم بھی ہوچلاتھا کہ وہ کسی غیر ملکی ایجنڈے پر کام کررہاہے لیکن ہم غلط تھے ،سرے سے غلط۔ لہجہ تلخ سہی لیکن اُسکے اندر ایک دھڑکتا ہوا دِل بھی ہے جو دردکی ٹیسوں کو محسوس بھی کرتاہے اور ،نونہالانِ وطن کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ بھی نہیں کرتا۔اُس نے ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اوراپنی 126 روزہ تپسیا کو فراموش کرکے یہ نعرۂ مستانہ بلند کردیا کہ وہ حکومت کے کندھے سے کندھاملاکر دہشت گردی کی جنگ لڑے گا ۔نہیں معلوم کہ اُس کا سیاسی قَد اونچاہوا یا نہیں لیکن وہ لازمۂ انسانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ضرورہوگیا۔وہ ضدّی تو ہے اور ضدّی بھی فیض کے اِس شعرکی عملی تصویر جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم ،جو چلے تو جاں سے گزر گئے رہِ یارہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا۔
اُس نے ”طالبان خاں”جیساطعنہ برداشت کرلیامگرطالبان کے خلاف ایکشن کی مخالفت پہ ڈٹارہا۔ لیکن جب اُس کے دِل پرچوٹ پڑی تو وہ اپنا سارا سیاسی مستقبل داؤ پرلگاکر اُنہی طالبان کونیست ونابود کرنے کے لیے اُس شخص کے کندھے سے کندھاملاکرکھڑا ہوگیا جسکے اندازِسیاست کا وہ شدیدمخالف ہے۔باقی سبھی سیاسی جماعتیں توپہلے ہی میاںنوازشریف کی دست وبازو تھیں ،ثابت توصرف کپتان نے کیاکہ ” اِس پرچم کے سائے تلے ،ہم ایک ہیں ،ہم ایک ہیں”۔خاںصاحب نے کنٹینرپر کھڑے ہوکر انتہائی کرب کے عالم میںکہاکہ بڑوںکی لڑائی میں بچوںکو کیسے مارا جاسکتاہے ۔عرض ہے کہ خون آشام درندوںکو تو اپنی درندگی کا ثبوت دیناتھا جو آرمی پبلک سکول پشاورمیں دے دیاگیا ۔وزیرِاعظم صاحب نے کہا ”بچوںکے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیںگے”۔ہمیں یقین ہے کہ میاںصاحب ایساہی کریںگے لیکن یہ خوف بھی دامن گیر کہ کہیں یہ وقتی جوش کی لہر نہ ہو۔نپولین نے کہا ”جنگ کا افسوسناک پہلویہ ہے کہ لوگ مَر جاتے ہیں لیکن تکلیف دہ پہلویہ کہ ہم اُنہیںفراموش کر دیتے ہیں”۔ہماری فراموش کردینے کی تاریخ توویسے ہی بہت تلخ ہے،ہم تو بہت کچھ بھلاکے بیٹھے ہیں اور ہمیشہ ہی ایساہوتاہے کہ کسی سانحے پر چنددِن شور اُٹھتاہے اور پھروہ وقت کی دھول میں گُم ہوجاتاہے لیکن سانحہ پشاور بھلایا جاسکتاہے نہ مٹایا کیونکہ اِس میں ہمارے بچوںکا خون شامل ہے۔
اگرحکمرانوںکے اُٹھتے قدموںمیں ذرا سی بھی لرزش آئی تو وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ قوم تواُن کا دھماکا کرے گی ہی،تاریخ بھی اُنہیں معاف نہیں کرے گی۔ میاںصاحب! قوم کامطالبہ ہے کہ آپ یَکسو ہوکر اپنی تمامتر توانائیاں اِس فتنے کی سَرکوبی کے لیے وقف کردیں ۔یہ ویساہی ”فتنۂ خوارج” ہے جسکے خلاف حضرت علی کی تلواراُٹھی اور فتنہ نیست ونابود ہوگیا ۔وہ ساتوںوحشی واصلِ جہنم ہوئے اورلگ بھگ ڈیڑھ سوشہیدسیدھے جنت میں جاکر ڈٹ گئے۔جہنم سے نکلے ہوئے ابلیسیت کے علمبردارو! تُم بھلا اُس قوم کے جذبوںکوکیسے شکست دے سکتے ہو جس کی ایک پرنسپل کو وحشیوںنے سکول چھوڑنے کاحکم دیا لیکن وہ اپنے سکول کے بچوں کو چھوڑ کرجانے کے لئے تیار نہ ہوئیں۔
Peshawar School
ایک ٹیچر کلاس روم کے دروازے میں ڈٹ کر کھڑی ہو گئی اور اپنے بچوں کی یوں حفاظت کی جیسے وہ اُس کی کو کھ سے جنمے ہوں۔ وہ دونوں مری نہیں، امر ہو گئیں اور وحشی واصلِ جہنم ۔ ننھی خولہ اپنے باپ کے ساتھ سکول میں داخل ہونے کے لیے گھرسے خوشی خوشی آئی ،اُسے یزیدی فوج کے ایک سپاہی نے باپ کی گودمیںایسے ہی شہیدکر دیا جیسے علی اصغر کو کوفیوںنے حضرت امام حسین کی گودمیں شہید کیاتھا ۔باپ ہسپتال میں موت سے برسرِپیکار اور معصوم کلی منوں مٹی کے نیچے ،بھائی کبھی خولہ کو آوازیںدیتاہے تو کبھی اپنے باپ کی زندگی کے لیے ننھے ننھے ہاتھ اُٹھاکر دعائیں مانگتا ہے۔اُسی سکول کی ایک لیکچرار کے سامنے اُس کے 15 سالہ بیٹے کو شہید کر دیا گیا۔ ماں سکتے میں کہ تادمِ مرگ وہ منظر بھول نہ سکے گی۔
عباس تابش نے کہاتھا ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش میں نے اِک روز کہا تھا مجھے ڈَر لگتا ہے مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں ،جگرگوشے کو ڈرلگے تو ساری رات پلک جھپکائے بغیر گزاردیتی ہیں ۔وہ اب بھی صبح چونک کراُٹھیں گی کہ جگر گوشوںکو تیار کرکے سکول بھیجناہے اورچھٹی کے وقت نظریں دروازے پرکہ کب دروازے کی اوٹ سے چاندنکلتاہے لیکن کواڑوں کے پیچھے سے نکلنے والے چاند تو ڈوب چکے ،اب تو کرب میںڈوبی ،دُکھ میں لپٹی ماؤںکی دردبھری صدائیںہی باقی ہیں لیکن صبرکی تلقین کرنے والے کہتے ہیں اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو اب یہاں کوئی نہیں ،کوئی نہیں آئے گا چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے سچ کہاکہ دہشت گردوںنے ہمارے دِل پر وارکیاہے ۔آفرین ہے اُن جوانوں پہ جو وطن کی حفاظت کی خاطراپنے سینوں سے سیسہ پلائی دیواربناچکے اور ہزار لعنت ہے اُن یزیدیوں پہ جنہوںنے آرمی پبلک سکول پشاورمیں اُن بچوںکو تاک تاک کر شہیدکیا جنکے باپ اور بھائی آپریشن ضربِ عضب میں شریک ہیں۔آج حکومت اورفوج ایک صفحے پرہے اور پوری قوم اُن کی پشت پر۔ ہمیں یقین ہے کہ حکومت اور پُرعزم آرمی چیف اِن معصوم پھولوں کے خون کا بدلہ ضرورلیںگے ۔ ابتدا تو ہوچکی ،دو درندے واصلِ جہنم ہوئے لیکن ہم توایک ایک درندے کو پھانسی پرلٹکتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
خون آشام بھیڑیو! اِس سے پہلے کہ تمہیں نشانِ عبرت بنادیا جائے ،میں تمہارا شکریہ اداکرنا چاہتی ہوں کہ ایک توتمہاراعبرت ناک انجام قریب تَر ہوگیا اور دوسرے تم نے کراچی سے خیبرتک سب کویک جان کردیا ۔اب کوئی سندھی ،بلوچی ،سرحدی یا پنجابی نہیں ،سب پاکستانی اور سبھی ایک پرچم تلے ۔سب کا اللہ ایک ،رسولۖایک ،قُرآن ایک اور مقصدِحیات بھی ایک، تمہیں نشانِ عبرت بنانا ۔اب تمہارے حق میں کوئی آواز اُٹھے گی نہ تمہیں شہید ثابت کرنے کے لیے تاویلیں گھڑی جائیں گی ۔اب تو امیرِمحترم سراج الحق نے بھی کہہ دیا کہ یہ حیوانیت اوردرندگی کی انتہاہے ،اب ہمارا خاںبھی ”طالبان خاں” نہیںوہی پراناہیرو عمران خاں ہے۔ وحشیو! تُم نے 16 دسمبرکا دِن ہمارے زخم کریدنے کے لیے منتخب کیا ۔16 دسمبر 71ء کو میراوطن دولخت ہوا اور 16 دسمبر 14ء کو تم نے ہمارے جگرگوشوں کو لخت لخت کردیا۔ہمارے زخم ضرورہرے ہوگئے لیکن تم کبھی ہمارے حوصلوں کو شکست نہ دے پاؤگے۔