تحریر : سید توقیر زیدی دو ہفتوں کی بندش کے بعد افغانستان کی طرف سے بالآخر سمجھداری کا مظاہرہ کیا گیا اور جھنڈے کی توہین پر تحریری معذرت کرکے مستقبل میں ایسے کسی واقعہ کے نہ ہونے کا بھی یقین دلایا گیا جس کے بعد چمن کے باب دوستی کو کھول دیا گیا اور پندرہ روز سے بند ٹریفک بحال ہو گئی اگرچہ اس دوران بھارت کی تجویز پر افغانستان سے بذریعہ ہوائی جہاز فروٹ بھارت بھیجے گئے بھارت نے ٹیکسوں کی شکل میں رعائت بھی دی۔ اگرچہ یہ انتظام کیا گیا اس کے باوجود ٹرانزٹ ٹریڈ والی سہولت نہیں تھی۔ بہرحال بھارت کی طرف سے ہر ممکن کوشش ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں بگاڑ رہے اب تو اس کے ساتھ امریکہ بھی شامل ہو گیا۔ جان کیری کہتے ہیں کہ امریکہ، بھارت اور اب افغانستان خطے میں سٹرٹیجک پارٹنر ہیں۔
پاکستان کو دہشت گردوں کا صفایا کرنا چاہیے کہ دہشت گردی سے پاک بھارت تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔ ان حالات میں مشیرخارجہ محترم سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ پاکستان بہتر پوزیشن میں ہے اور یہ تاثر درست نہیں کہ ہم اکیلے ہیں۔ حقائق ان کے سامنے ہیں، بہت سے امور ہمارے سامنے نہیں ہوں گے تاہم جو کچھ سامنے ہے۔ جان کیری کے دورہ بھارت ،وہاں میڈیا سے بات اور امریکی ترجمان کی باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ حالات میں تبدیلی ہے اب تو چینی میڈیا نے بھی مستقبل کے حوالے سے یہی نشاندہی کی ہے کہ چین اور پاکستان کے ساتھ روس اور ایران کے شامل ہونے کے مواقع ہیں، ہم نے اس میں ترکی کو بھی شامل کیا ہے کہ اب ترکی اور روس کے تعلقات میں بہتری ہوئی اور امریکہ سے دوری ہو رہی ہے۔
گزشتہ روز وزیراعظم محمد نوازشریف گوادر میں تھے وہاں انہوں نے کئی منصوبوں کے سنگ بنیاد رکھے انہوں نے بہت خوش کن گفتگو کی۔ بتایا کہ گوادر ایک عالمی شہر بننے جا رہا ہے۔ انہوں نے ایئرپورٹ اور ہسپتال سے لے کر سڑکوں اور موٹروے کا ذکر کیا اور بتایا کہ یہاں پچاس ہزار افراد کے لئے روزگار کے مواقع بھی ہوں گے۔ انہوں نے چین اور پاکستان کی دوستی اور چین کی طرف سے تعاون اور امداد کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ گوادر بہرحال ایک بڑی بندرگاہ اور انٹرنیشنل سٹی بنے گا اور یہی وہ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے حالات میں تبدیلی ہو رہی ہے اور امریکہ سمیت بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔
Nawaz Sharif
وزیراعظم نے پاکستان کے ساتھ چین کا بھی ذکر کیا جو بجا ہے چین نے بھی سب سوچ سمجھ کر کیا اور گرم پانیوں تک رسائی حاصل ہو گی اس سے معیشت اور اقتصادیات میں جو عالمی فائدہ چین کو ہے وہ بہت بڑھ جائے گا اب یہی سب سرد جنگ کا ذریعہ بن رہا ہے تو پاکستان کو بھی اپنے پتے ہوشیاری سے کھیلنا ہوں گے۔ امریکہ بہرحال تھانیداری سے باز نہیں آئے گا، اس کے لئے ہمیں اپنی پالیسیوں کو درست رکھنااور لابنگ کرنا ہوگی، اب اگلا سوال نیو کلیئر سپلائر گروپ والا ہے امریکہ اب کھل کر بھارت کی حمائت کرے گا،ہمیں اپنے لئے راہ ہموار کرنا ہے، ابھی تک تو کامیابی ہے آئندہ اسے مستحکم کرنے اور رکھنے کی ضرورت ہوگی اور اس کے لئے اندرونی استحکام بہت ضروری ہے۔ اس وقت ملک کے اندر سیاسی خلفشار ہے، کل تحریک انصاف کی طرف سے لاہور میں مظاہرہ ہے، ڈاکٹرطاہرالقادری راولپنڈی میں کررہے ہیں، ان کے درمیان تعاون سے بعض دوسری جماعتوں نے بھی شرکت کا وعدہ کیا ہے۔
ہم نے پہلے عرض کر دیا تھا کہ پیپلزپارٹی نے بھی تو شرکت کرنا ہے۔ سردار لطیف کھوسہ اور میاں منظور وٹو، بلاول بھٹو کی نمائندگی کریں گے۔ سینٹ میں جوڈیشل بل کے حوالے سے تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کی حمائت کر دی۔ اس سلسلے میں حالات کو معمول پر لانے کی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی۔ حکمرانوں کو کرنی چاہیے اب مزید موقع بنا ہے پیپلزپارٹی نے سینٹ میں بل پیش کیا تو حکومت قومی اسمبلی میں مسودہ قانون پیش کرنے لگی ہے۔ یوں پارلیمانی سطح پرایک کوشش ہو سکتی ہے کہ دونوں طرف سے کچھ سنجیدہ حضرات مسودات کو ملا کر ایک مسودہ بنا لیں اور متفقہ قانون بنا لیں ورنہ اپوزیشن کا بل سینٹ سے منظور ہوا تو قومی اسمبلی سے نہیں ہو سکتا اور سینٹ میں حکومت کو اکثریت حاصل نہیں۔
اس کا بل قومی اسمبلی سے منظور ہو کر سینٹ میں اٹک جائے گا اور پھر دونوں کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جانا ہوگا۔ اس لئے باہمی طور پر ضد ختم کرکے مفاہمت سے قانون منظور کراکے پاناما کا مسئلہ حل کر لیا جائے اور اسے مزید مفاہمت کا ذریعہ بنا لیا جائے۔ دوسری صورت میں احتجاج بڑھتا رہا تو مناسب نہیں ہوگا۔ایم کیو ایم کے حالات سامنے ہیں اب تو خود اس جماعت کے رہنما ”را” فیکٹر کو تسلیم کرکے بقا کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ یہ الگ تفصیل کا متقاضی ہے، پھر اس پر بات کریں گے، فی الحال انتظار کرنا ہوگا۔ ہماری اپیل تو یہی ہے کہ مفاہمت کی طرف بڑھیں۔