ایک بادشاہ جو اپنی رعایا میں بہت ہی سنگدل بے رحم اور ظالم مشہور تھالیکن حقیت میں وہ بہت ہی رحم دل اور نیک سیرت انسان ہوتا ہے۔ بادشاہ یہ چاہتا تھا کہ اُس کی قوم، نڈر، غیور، بہادربنے، سر جُھکاکرنہیں سر اُٹھا کر جئے اِس لیئے بادشاہ نے سخت روئیہ اپنایا ہواتھاجس کا خوف اس کی رعایامیں پایا جاتا تھا۔ کئی طرح کی کوششیں کرنے کے باوجود بھی بادشاہ نے محسوس کیا کہ لوگوں میں وہ بیداری پیدا نہیں ہورہی جیسی وہ چاہتا ہے۔ آخرکار بڑے غو وفکر کرنے کے بعد بادشاہ نے پوری سلطنت میںاعلان کروایا کہ سلطنت کے مین دروازے سے کوئی بھی شخص اندر باہر آئیگایا جائیگا اُس کے سر پر دو، دو جوتے مارے جائینگے۔ منادی ہونے کے اگلے ہی روز حُکم نامے پر عمل شروع ہو گیا، اب بادشاہ پُر اُمید تھا کہ اُس کے اس عمل پر لوگ چُپ نہیں بیٹھیںگئے اور کوئی نہ کوئی ردِعمل ضرور ظاہر کریںگئے۔
کچھ ہی دن گُزرنے کے بعد رعایا میں سے چند لوگ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے اور بڑی ہی عاجزی سے عرض کیا ،باد شاہ سلامت یہ جو آپ نے جوتے مارنے والا حُکم نامہ جاری کیاہے اُس سلسلے میں آ پ سے کچھ عرض کرنے کے لیئے حاضر ہوئے ہیں۔بادشاہ دِل ہی دِل میںخوش ہواکہ چلو جیسے ہی سہی میری قوم میں بات کرنے کی ہمت تو آئی۔ ایک شخص آگے بڑھا سر کو جُھکائے اور بڑی ہی دھیمی آواز میں بادشاہ سے بولا۔باد شاہ سلامت ،ہر کسی کو صبح کام پر جانے کی جلدی ہوتی ہے اور جوتے مارنے کے لیئے صرف ایک ہی سپاہی مقرر کیاگیا ہے لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر ہمیں اپنے اپنے کام پر پہنچنے میں دیر ہوجاتی ہے اِس لیئے آپ سے گُزارش ہے کہ جوتے مارنے کے لیئے ایک کی جگہ دو سپاہیوں کو مقرر کیا جائے تاکہ ہم جلدی فارغ ہوکر اپنے کام پر ٹائم پر پہنچ سکیں۔
یہ سُنتے ہی بادشاہ افسردہ ہوکر اور کچھ بولے بغیر ہی دربار سے اُٹھ کر چلاگیا۔ بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ ایسی بزدل قوم پر حکمرانی کرنے سے بہترہے غلامی کی زندگی جینا۔ بس وہ غیرت مند بادشاہ بزدل رعایا کو اُن کے حال پر چھوڑکر کہیں دور گُمنامی کی زندگی گُزارنے لگا۔اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصدصرف یہ ہے کہ آج جب میں پاکستان کے عوام کو دیکھتا ہوں تو اُس بزدل رعایا کی جھلک مجھے اپنی قوم میں نظر آتی ہے۔ اس وقت پاکستان کے موجودہ حالات اس کہانی کی عکاسی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ہا ںمیں بالکل یہ احمقانہ بات نہیں کرونگا کہ ہمارے موجودہ حکمران کہانی کے غیرت مند بادشاہ والے کردار کو نبھارہے ہیں لیکن پاکستان کے عوام کہانی والی رعایا کا کردارباخوبی نِبھارہے ہیں ۔ہماری قوم اتنی بے حِس، نا عاقبت اندیش، خود غرض، سُست اور کاہِل ہو چکی ہے کہ جس کی کوئی مشال نہیں۔ ہم اتنے بزدل ہوگئے ہیں کہ اپنے حق کے لیئے لڑنا تو دور کی بات ہم آواز اُٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے۔
Politicians Rally
ہم لوگ سیاستدانوں کے جلسے، جلسوں اور ریلیوں میں اُن کی خوشامد کے لیئے نعرے لگانا، تالیاں بجانا اورسواے اس کے کچھ نہیں کر سکتے۔ ہمار ی حالت بھی اُس گدھے جیسی ہے جس کی پیٹھ پر جتنا بوجھ رکھ دیا جائے وہ اُسے خوشی خوشی اُٹھا لیتا ہے چاہے وہ اُس بوجھ کو اُٹھانے کی سکت رکھتا ہے یا نہیں رکھتا، شاید اسی لیئے اُسے گدھا کہا جاتا ہے۔۔۔ خیر ہم تو انسان ہیںناں؟پاکستان اس وقت چند بے ضمیر سیاستدانوں اورد جاہلی عُلمائوں کے چُنگل میں بری طرح پھنسا ہوا ہے جنہوں نے معصوم عوام کو کٹ پُتلی بنا رکھا ہے جنہیں وہ اپنی مرضی سے نچا بھی رہے ہیں اور لڑا بھی رہے ہیں۔عوام سیاسی پارٹیوں اور مذ ہبی فرقوں میں ایسے بٹ چُکے ہیں کہ یہاں کوئی مسلم لیگی ہے تو کوئی پیپلزپارٹی کاہے کوئی فلاں تو کوئی فلاں۔ یہ ایک لمحہِ فکر ہے کہ آج لوگ پاکسان میں رہتے ہوئے اپنی پہچان پاکستانی بن کر یا مسلمان بن کر نہیںبلکہ اپنی سیاسی جماعتو ںکے نام سے یا پھر مذہبی حوالے سے کرواتے ہیں۔ یہاں تک کے 14 اگست کادن ہویا پھر پاکستان کا کوئی اور تہوار لوگوں نے پاکستانی سبزہلالی پرچم سے زیادہ اپنی اپنی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے جھنڈے اُٹھائے ہوئے ہوتے ہیںاور یہ سب کچھ جاہل عُلمائوں اور مفاد پرست سیاستدانوں کا کیا دھراہے انہوں نے عوام کو ایسے بکھیر دیا ہے کہ عوام چاہتے ہوئے بھی اب متحد نہیں ہو پا رہے ہیں۔
اور جو قومیں آپس میں متحد ہوکر نہیں رہتی اُنکا حال پھر ایراق فلسطین اور لیبیاء جیسا ہوتا ہے ایک غریب لکڑ ہارے کی کہانی ہم میں سے ہر ایک نے تقریباً سُنی یا پڑھی ہوگی،میں اُس کہانی کو ایک بار پھر سے دوہرانہ چاہتا ہوں کیونکہ کہ اس چھوٹی سی کہانی میں ایک بڑے مقصد کی بات ہمارے لیے چُھپی ہوئی ہے۔اُس کے پانچ بیٹے تھے اور پانچوں میں اتقاق بالکل نہیں تھا۔ لکڑہارے نے ایک دن پانچوں بیٹوں کو بُلایا اور اُن کو پانچ لکڑیوں کی ایک گُٹھا بنا کے دیا اور پھر سب سے کہا کے اس گٹھے کو باری باری توڑنے کی کوشش کرو،لیکن کسی ایک سے بھی لکڑیوں کا وہ گُٹھانہ ٹوٹ سکا ،پھر لکڑہارے نے گُٹھے کو کھول کر ایک ایک لکڑی کو توڑنے کا کہا تو سب نے آسانی سے الگ الگ لکڑیوں کو توڑدیا،تب لکڑہارے نے سمجھایا دیکھا تم لوگوں نے جب پانچ لکڑیوں کا ایک گُٹھا تھا تو تم میں سے کوئی بھی اُسے نہیں توڑ نہیں سکا، اور جب لکڑیوں کو الگ کیا گیا تو آسانی سے ایک ایک ہو کر تما م لکڑیا ں ٹوٹ گئیں،اسی طرح اگر آپ لوگ بھی ا کٹھے اور متحد ہوکر رہو گئے تو تُمیں کوئی نہیں توڑ سکے گا اور اگر نااتفاقی اور آپس میں لڑتے جھگڑتے رہو گئے تو ان لکڑیوں کی طرح ایک ایک ہو کر ٹوٹ جائو گئے۔
اگر ہم سب اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا ہم سب متحد اور ایک قوم ہیں تو یقینا جواب نہ ہی ہوگا۔ کیونکہ پاکستان ایک نہیں بلکہ کئی ٹکڑوں میں بٹ چُکا ہے، سب سے پہلے پاکستان کو زبان اور قوم پرستی کے نام پر تقسیم کیا گیا کوئی سندھی، بلوچی، پنجابی، اور کوئی پختونخوان بن گیا ،پھر مذہب کے نام پر تقسیم ہوئے، کوئی شیعہتو کوئی سنی بنا دیا گیا۔ میرا ایک معصومانہ سا سوال ہے پورے پاکسان کے عوام سے کہ یوں تو ہم سندھی بھی ہیں بلوچی بھی پٹھان اور پنجابی بھی ہیں اور ہم پیپلزپارٹی کے بھی ہیں مسلم لیگی بھی تحریک انصاف کے ایم کیوایم کے اور جماعت اسلامی کے بھی ہیںاور پھر ہم شیعہ بھی ہیں سنی بھی ہیں بریلوی اور دیوبندی بھی ہیں لیکن کیا ہم مسلمان اور پاکستانی بھی ہیں۔