اسلام آباد (جیوڈیسک) احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بری کرتے ہوئے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنادی، جس کے بعد انہیں کمرہ عدالت سے حراست میں لے لیا گیا۔
احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ریفرنسز پر فیصلہ سنایا، سابق وزیراعظم نواز شریف فیصلہ سننے کے لیے خود بھی عدالت میں موجود تھے۔
عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں قرار دیا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں کیس نہیں بنتا، اس لیے نواز شریف کو بری کیا جاتا ہے۔
احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ العزیزیہ ریفرنس میں کافی ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور نواز شریف منی ٹریل نہیں دے سکے، لہذا انہیں 7 سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔
عدالت کے زبانی حکمنامے میں نواز شریف کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی، واضح رہے کہ عدالت حسن اور حسین نواز کو عدم حاضری پر پہلے ہی اشتہاری قرار دے کر دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرچکی ہے۔
سزا سننے کے بعد نواز شریف نے احتساب عدالت سے درخواست کی کہ انہیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے بجائے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں منتقل کیا جائے۔
نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے نواز شریف کی درخواست کی مخالفت کی گئی، تاہم عدالت نے سابق وزیراعظم کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔
احتساب عدالت کے باہر لیگی کارکنوں اور سینئر رہنماؤں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی، جن میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، مریم اورنگزیب، احسن اقبال، مرتضی جاوید عباسی، رانا تنویر، راجا ظفر الحق، مشاہد اللہ خان اور خرم دستگیر سمیت دیگر شامل تھے۔
اس موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے، احتساب عدالت کے اطراف پولیس کے ایک ہزار اہلکار تعینات رہے جبکہ کمرہ عدالت میں نواز شریف کو کلوز پروٹیکشن یونٹ سیکیورٹی فراہم کی گئی۔
ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے رینجرز بھی موجود رہی جبکہ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے اہلکاروں نے عدالت کے اطراف چیکنگ بھی کی۔
نواز شریف کی آمد کے موقع پر جی الیون سگنل پر لیگی کارکنوں اور پولیس میں تصادم اور دھکم پیل ہوئی، جبکہ پولیس کی جانب سے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل بھی فائر کیے گئے۔
لیگی کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کے شیل فائر کیے—۔جیو نیوز اسکرین گریب فیصلے سے قبل اور بعد میں مریم نواز کے ٹوئٹر پیغام
سابق وزیراعظم نواز شریف کی احتساب عدالت آمد کے موقع پر ان کی گاڑی کو لیگی کارکنوں نے گھیر لیا، نعرے بازی اور پھول بھی نچھاور کیے۔
اس موقع کی ویڈیو نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ٹوئٹر پر شیئر کی اور ساتھ میں لکھا، ‘عوام کی محبت میں گِھرا ہوا نواز شریف’۔
فیصلہ سنائے جانے کے بعد مریم نواز نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا پر تنقید کرتے ہوئے اسے ‘اندھے انتقام کی آخری ہچکی’ قرار دیا اور لکھا کہ ‘ڈھائی سال کے طویل انتقام نما احتساب کے بعد اور تین نسلیں کھنگالنے کے بعد نہ تو ایک پائی کی کرپشن ثابت ہوئی، نہ کِک بیک، نہ کمشن اور نہ ہی سرکاری خزانے میں رتی بھر خیانت ثابت ہو سکی’۔
مریم نواز نے مزید لکھا کہ ‘جتنے بھی فیصلے آئے، نواز شریف کے مرحوم والد کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے آئے۔ اس میں بھی کچھ غلط نہ مل سکا تو مفروضوں پر سزائیں سنائی گئیں’۔
انہوں نے آج کے فیصلے کو ‘نواز شریف کی امانت، صداقت اور دیانت پر ایک اور مہر’ قرار دیا۔
سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 کو سنائے گئے پاناما کیس کے فیصلے کے نتیجے میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دے دیا گیا تھا جبکہ عدالت عظمیٰ نے نیب کو شریف خاندان کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا۔
8 ستمبر 2017 کو نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز، فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور ایون فیلڈ ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے۔
احتساب عدالت ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ پہلے ہی سنا چکی ہے جس میں نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی جسے بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا تھا۔
دوسری جانب 19 اکتوبر2017 کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد ہوئی جبکہ 20 اکتوبر2017 احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد کی اور حسن نواز اور حسین نواز کو مفرور ملزمان قرار دیا گیا۔
احتساب عدالت نمبر ایک اور دو میں نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی مجموعی طور پر 183 سماعتیں ہوئیں، جن میں سے العزیزیہ ریفرنس میں 22 اور فلیگ شپ ریفرنس میں 16 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔
سابق وزیراعظم مجموعی طور پر 130 بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے، وہ 70 بار احتساب عدالت نمبر 1 کے جج محمد بشیر اور 60 بار احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک کے روبرو پیش ہوئے۔
احتساب عدالت نے مختلف اوقات میں نواز شریف کو 49 سماعتوں پر حاضری سے استثنیٰ دیا، جج محمد بشیر نے 29 جبکہ جج ارشد ملک نے نواز شریف کو 20 سماعتوں پر حاضری سے استثنیٰ دیا۔
احتساب عدالت نمبر ایک میں 70 میں سے 65 پیشیوں پر مریم نواز میاں نواز شریف کے ساتھ تھیں۔
ایون فیلڈ میں سزا کے بعد نواز شریف کو 15 بار اڈیالہ جیل سے لا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔
نیب کا الزام تھا کہ نواز شریف نے وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ کے دور میں اپنے بیٹوں حسن اور حسین نواز کے نام پر بے نامی جائیدادیں بنائیں جبکہ اس دوران ان کے بچے زیر کفالت تھے۔
دوسری جانب شریف خاندان نے مؤقف اپنایا تھا کہ العزیزیہ اسٹیل ملز قطری سرمایہ کاری سے خریدی گئی اور حسن نواز کو کاروبار کے لیے سرمایہ بھی قطری نے فراہم کیا، جس کی بنیاد پر فلیگ شپ کمپنی بنائی گئی۔
شریف خاندان کے مطابق تمام جائیدادیں بچوں کے نام ہیں اور نواز شریف کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔
فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ ریفرنس مخالفین اور جے آئی ٹی کی جانبدار رپورٹ پر بنایا گیا اور استغاثہ ان کے خلاف ثبوت لانے میں ناکام ہوگیا۔