خاکسار کے خیال میں انسان اس دنیا میں ایک طالب علم کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان پیدا ہونے سے لے کر اپنی موت تک کے سفر میں ہر روز بلکہ لمحہ بہ لمحہ کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہے ۔موت آنے پر انسان تو دنیا سے چلا جاتا ہے پر علم باقی رہتا ہے۔ جس کی زندہ مثال یہ ہے کہ چودہ سو سال بعد بھی علم دین یعنی اسلامی تعلیمات آج بھی باقی ہیں باقی ہیں جو تاقیامت زندہ رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے جو علم اپنے پیغمبروں، قرآن کریم اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے ذریعے بندوں کو عطا کیا وہی حق ہے اوربے شک حق باقی رہے گا۔
خاص ہستیوں پر تبصرہ کرنا میرے بس کی بات نہیں لیکن عام انسان کبھی بھی مکمل نہیں ہوسکتا اور اسے زمانہ طالب علمی میں ہی اس دنیا سے جانا پڑتا ہے۔ علم وہ چیز ہے جوحیوان اور انسان کا فرق ظاہر کرتا ہے۔ جاہل انسان بھی ایک طرح سے حیوان ہی بن جاتا ہے۔ جسے اس بات کا علم ہی نہیں کہ وہ اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے اور اس نے زندگی کن اصولوں کے مطابق گزارنی ہے۔ جاہل وہ ہے جسے اچھے برے کی تمیز ہی نہ ہوہاں یہ یاد رہے یہاں بات جاہل کی ہے۔ ظاہری ان پڑھ کی نہیں بہت سے لوگ ظاہری طور پر ان پڑھ ہوتے ہیں۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو عقل وشعور کی بے پناہ دولت سے نوازا ہوتا ہے۔اور وہ حق و باطل کو خوب جانتے ہیں ۔ہمارے لیے علم حاصل کرنے کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے فرمایا کہ علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے۔ ایک اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے قرآن کریم میں بھی علم کی فضیلت و اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ علم کے معنی جاننا، معلوم کرنا، سمجھ لیناکے ہیں۔ انسان کوسب سے پہلے اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ اس کاخالق و مالک کون ہے اور اس نے انسان کو اس دنیا میں کیوں بھیجا ہے اس کائنات اور زندگی کو پیدا کرنے کے پیچھے اس عظیم خالق و مالک کا مقصد کیا ہے۔
انسان کو اس دنیا میں کس طرح زندگی گزارنی چاہیے زندگی بھر کس کی عبادت کرنی ہے اور سب سے خاص کہ انسان کو کون سا علم حاصل کرنا ہے؟علم ذاتی تو صرف اورصرف اللہ تعالیٰ ہی کا ہے وہ جسے چاہے عطا کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں سب سے زیادہ علم انسان کو عطا کیاہے اسی لیے انسان تمام مخلوقات سے افضل ہے یعنی اشرف المخلوقات۔ اور اس سے بھی بڑھ کرا للہ تعالیٰ نے انسان کو قرآن و حدیث کے ذریعے اور بھی زیادہ علم عطا کردیا ہے۔ اب ضرورت صرف اس علم کو حاصل کرنے کی ہے۔
Allah
حقیقی علم یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے۔ اس علم کو دینی اور روحانی علم بولتے ہیں۔ اس علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے تاکہ وہ اپنی زندگی خُدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے بتائے اصولوں کے مطابق گزار سکے۔ جو شخص دینی اور روحانی علم حاصل نہیں کرتا وہ جاہل ہے (اللہ اکبر)اوراللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہے۔ یاد رہے کہ علم صرف اور صرف اللہ ہی کا ہے اور کوئی بھی علم اس کائنات میں نہیں ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دینی و روحانی علم حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے۔
کہ جدید سانئسی علوم حاصل کرنا علم دین سے جدا ہیں تومیری نظر میں ان کا یہ سوچنا انتہائی غلط ہے کیونکہ ہرقسم کا علم اللہ ہی کا ہے اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ علم دین کے ساتھ ساتھ سائنس، ریاضی، میڈیکل، انجینئرنگ اور علم جہاد یعنی جنگ وغیرہ وغیرہ بھی ضرور سیکھے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بہت خاص علم اُتارا ہے۔ قرآن کا سیکھنا اور سیکھ کر دوسروں کو سیکھانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت پسندیدہ عمل ہے ۔حدیث شریف ہے کہ تم میں بہترین شخص وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سیکھایا قرآن کریم اپنے بندوں کی طرف اللہ تعالیٰ کا آخری کلام اور پیغام ہے۔
قرآن کریم تمام انسانوں اور تمام زمانوں کے لیے ہدایت ورہنمائی کا ذریعہ اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ا نسان کی فلاح، نجات، سرخروئی اور کامیابی وکامرانی اسی میں ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیمات حاصل کرئے انھیں سمجھے اور ان پر عمل کرے۔ اللہ تعالیٰ کو جاہل انسان اس قدر نہ پسند ہے کہ اس نے ہر دور میں انسان کو علم سیکھانے کی غرض سے اپنے پیغمبر تعینات کیے اور آخر میں مسلمانوں اور تمام کائنات کے لیے رحمت بنا کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کو دنیا میں بھیجا جن کی ساری زندگی مسلمانوں کوعملی طور پر اللہ تعالیٰ کا دین (اسلام)سیکھانے میں گزری۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے مسلمانوں کو اس قدر آسان طریقوں کے ذریعے علم دین سیکھایا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ صحابہ اکرام عیلہ السلام کی موجودگی میں اکثر اللہ تعالیٰ کے فرشتے(انسانی روپ میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ایسے ایسے سوالات سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی خدمت میں پیش کرتے جن کا صحابہ اکرام کو اس سے پہلے کچھ علم نہ ہوتا۔ ایک مرتبہ ایک بدو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے دربار میں حاضرہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے فرمایا ہاں کہو۔دربار میں اس وقت دوسرے صحابہ اکرام عیلہ السلام کے ساتھ حضرت خٰالد بن ولید بھی موجود تھے۔ انہوں نے یہ حدیث شریف تحریر کرکے اپنے پاس رکھ لی جوآج تک مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر imtiazali470@gmail.com.03154174470