عدالتوں کا سامنا کیا ہے، جیلوں کا سامنا کیا ہے۔ شرم نہیں آتی کہتے ہوئے کون نہیں جانتا پاکستانی عدالتوں سے ہونے والی پھانسی کی سزائوں پر بھی عملدرآمد نہیں ہورہا ،بات ایسے کی جاتی ہے جیسے سعودی عرب کی عدالتوں کا سامنا کیا ہو چائنہ یا بنگلہ دیش کی عدالتوں کا سامنا کیا ہوجہاں سرقلم اور پھانسی کے احکامات پر عملدرآمد کرہی دیا جاتاہے۔عام آدمی کیلئے روزگار ندارد۔۔ این ٹی ایس مریم کیلئے کیوں نہیں تھا ؟ اور دوسرے ایسے رشتے داروں کیلئے کیوں نہیں؟ جنہیں اربوں روپے کے پراجیکٹس پر انچارج بنا دیا جاتا ہے۔
این ٹی ایس اور دیگر ایسے ٹیسٹ سبھی حیلے بہانے ہیں غریب کو روزگار سے محروم کرنے کے، ایک عزت دار آدمی جو خوشامد سے دور بھاگتا ہے جو سیاستدانوں کی جوتیاں نہیں چاٹ سکتا اسے اس نظام سے دور رکھا جارہا ہے۔عام سی نوکریوں کیلئے سیاستدانوں کے تلوے چاٹنا پڑتے ہیں لعنت ہے ایسے میرٹ پر۔۔!!گلی محلوں اور نالیوں کی مرمت تک کیلئے سیاستدانوں سے تعلقات ضروری ہیں انتظامیہ وغیرہ کچھ بھی نہیں رہتی ایسی جمہوریت میں ،ہم نے دیکھا ہے کہ انتظامی افسران عوامی مشکلات پر قابو پانے کیلئے اپنے اختیارات کا استعمال کرنے کی بجائے برسراقتدار سیاستدانوں کے احکامات کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
اس جمہوریت سے آمریت ہزار درجے بہتر ہے کہ جب میرٹ کا قتل عام نہیں ہوتا ،افسران میں کچھ خدا خوفی ہوتی ہے کہ وہ قدرے میرٹ پر فیصلے کرتے اور عام آدمی کو سرکاری اداروں میں روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں۔پاکستان میں عام آدمی کو جمہوریت سے جتنا خطرہ ہے۔ پولیس سے جتنا خطرہ ہے وہ خطرہ آمریت اور چورو ں ڈاکوئوں سے نہیں کوئی شریف شہری ملک کے مختلف علاقوں میں سفر کی نیت سے نکلے تو پولیس کا خوف دل میں لئے نکلتا ہے کہ جگہ جگہ ناکے لگائے پولیس اہلکار پہلے شہری کا چہرہ پڑھتے ہیں کوئی شریف آدمی لگے تو اسے روک کر موقعہ پر ہی ایسے تفتیش شروع کردی جاتی ہے جیسے کوئی دہشت گرد ہاتھ آگیا ہواور بڑی بڑی پجارو،پراڈو گاڑیوں اورجدید اسلحہ برداروں سے لیس گاڑیوں کو روکنے کی کسی میں جرات نہیں ہوتی خواہ ان گاڑیوں میں ریاست کا مطلوب ترین دہشت گرد ہی سوار ہو۔ریاستی اداروں میں کرپشن اپنی عروج پر ہے
شہریوں کو آئین کے مطابق بنیادی سہولتیں ہی میسر نہیں۔تعلیم اور صحت کے شعبوں کا بیڑہ غرق ہوا پڑا ہے عام آدمی کا بچہ سرکاری اداروں سکولوں کالجوں میں ایڑیاں رگڑتا ہے وہاں اس کے پلے کچھ نہیں پڑتا مر مر کے کہیں گریجوایٹ یا ماسٹر ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوہی جائے تو اس پر روزگار کے دروازے بند ہیںکسی ایک ادارے میں بھرتیوں کے لئے اشتہار آجائے تو 3500 شرائط ساتھ ہوتی ہیںایسے ایسے ڈپلوموں اور تجربوں کو لازمی قرار دیا جاتا ہے کہ جو عام آدمی کا بچہ خواب میں بھی حاصل نہیں کرسکتا وجہ کیا کہ کہیں کسی غریب کا بچہ اس ملک کے اداروں میں اپنی مخلصانہ خدمات کے عوض کوئی فائدہ حاصل نہ کرلے۔بجلی، گیس،علاج معالجہ کی سہولتیں سب کے سامنے ہیں۔
سرکاری ہسپتالوں میں سہولتوں کا فقدان تو دوسری جانب احتساب سے بے خوف ڈاکٹرز اور عملہ کا بے بس مریضوں اور لواحقین کیساتھ ناروا سلوک، ایک طرف تمہارے خاندانوں سمیت سرکاری خرچ پر دورے،بیرونی ممالک کے ہسپتالوں سے مہنگے علاج ،چم چم کرتی گاڑیاں سینکڑوں خوشامدی اور سرکاری پروٹوکول، لاکھوں ،کروڑوں روپے تمہاری دعوتوں پر لٹا دیئے جاتے ہیں دوسری جانب ہر گھر ہر شہر میں ایک سے بڑھ کر ایک تھر جیسی داستان ہے۔
Terrorism
دہشت گردی میں غریب مارے جاتے ہیں، وڈیروں کی لاقانونیت کی الگ داستانیں ہیں کوئی کیس میڈیا میں ہائی لائٹ ہو تو امداد کا اعلان ہوجائے ورنہ کوئی مرتا ہے تو مرتا رہے جناب کی بلا سے۔ بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی پر ایک شہر میں جس طرح پولیس نے شہریوںکو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور اس پر پولیس افسرکے جھوٹ پاکستانی پولیس کے عیب کھول دینے کیلئے کافی ہیں۔اب پھر تحریک انصاف کی طرف سے 30نومبر کو اسلام آباد میں بڑے پروگرام کا اعلان کیا گیا ہے۔جڑواں شہروں کے لوگ کئی روز پہلے سے ہی انجانے خوف میں مبتلا ہیں شہروں کو سیل کردیا جائے گا جگہ جگہ پولیس اور دیگر فورسز کے ڈیرے ،بچے سوال پوچھتے ہیں اپنے والدین سے کہ اس ملک کو کس سے خطرہ ہے؟ انہیں کیا بتایا جائے جمہوریت سے یا پھر تمہاری صداقت سے؟ برسر اقتدار شخصیات تحریک انصاف کی طرف سے آنے والے بیانات کے بعد تڑپ اٹھی ہیں نظام کی اصلاح کیلئے اب بھی کوئی مخلص نظر نہیں آتا سب کے سب اپنی کرسیوں اور باریوں کو بچانے کیلئے متحد ہورہے ہیں۔
اﷲ کے بندو ! تمہاری سیاست تمہارے کرتوتوں کی وجہ سے عوام نے ٹھکرادی ہے سیاست اور جمہوریت کے نام پر ملکی قوانین کو پائوں تلے روندنے والوظلم کی رات کب تک؟ مخلص ہوتو اب ہی اپنا قبلہ درست کرلو، دھرنے والوں کے پاس کوئی جواز ہی نہ رہے ۔ بیرون ملک اپنی جائیدادوں کو فروخت کرو، بیرونی بینکوں میں پڑا سرمایہ وطن عزیز میں لائو کہ تمہارے مخالفین کے کسی الزام میں خود ہی جان نہ رہے گی مگر ایسا کون کرے گا؟ کوئی نہیں کیوں کہ تمہیں پتہ ہے پاکستان میں خواندہ لوگوں کی تعداد بہت کم ہے معصوم چہروں کیساتھ میڈیا پر تقاریر کرو گے ملک کی نام نہاد ترقی بارے،بات کرو گے مختلف کاغذی منصوبوں کی، ملک کی ترقی کو آئندہ دو تین سال میں آسمانوں کی بلندی پر پہنچانے کی توناخواندہ اکثریت تمہاری معصومیت کے سامنے تمہاری جذباتی حمایت کرنے میں دیر نہیں کرے گی یہی تمہاری کامیابی اور اس ملک کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔
ریڈ زون میں جومقدس مقامات ہیں ان کی دید کیلئے پاکستانی شہریوں پر اتنی پابندیاں نہ لگائی جائیں کہ ایسی بے جا پابندیوں سے عام لوگوں میں بھی ان مقدس مقامات کو دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے ۔ان مقدس عمارتوں سے تمہاری والہانہ محبت اور شہریوں کے جان ومال کی پرواہ کئے بغیر ساری مشینری کو اپنی اور ان عمارتوں کی حفاظت پر تعینات کر کے شہریوں کو ڈاکوئوں، چوروں، راہزنوں کے رحم وکرم پر چھوڑنا کس بات کی نشانیاں ہیں تمہاری عوام سے محبت کی یا اقتدار سے؟
آرڈیننس کوئی پاس کرنا ہے تو ایسا کرو جسے عوام تسلیم کریں ایسا آرڈیننس بھی کبھی پاس کرو کہ جس وزیر کے علاقہ میں کوئی شخص روزگار، انصاف نہ ملنے سے مایوس ہو کر خود کشی کرے یا بھوک کی وجہ سے مرے تو اس علاقہ /صورتحال کے ذمہ دار وزیر ، وزیراعلیٰ کیلئے کڑی ترین سزا ہو۔عوام کو بھی محسوس ہو کہ تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے۔حقوق العباد کو نظرانداز کرکے کروڑوں انسانوں کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر جمہوریت کے نام پر بے وقوف بنانے کا سلسلہ بند کردو خود جمہوریت کے نام پر مزے اور قوم کو بے وقوف بناتے ہو مگر کب تک! آج دنیا سے بے خوف ہی سہی کل روز محشر کے احتساب سے تمہیں کون بچائے گا۔امریکہ،جمہوریت ، تمہارے بینک اکائونٹس یا پھر نام نہاد دیانتداری؟