تحریر: مہر بشارت صدیقی ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب کے باعث تباہ کاریاں جاری ہیں، دریائے سندھ میں طغیانی کے باعث پنجاب اور سندھ کے مزید دیہات زیر آب آگئے۔ سیلاب سے گلگت بلتستان کے 5 اضلاع اور جنوبی پنجاب میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ حب میں سیلابی ریلے میں 21 افراد بہہ گئے 7 نعشیں نکال لی گئیں۔ لیہ میں 382 بستیاں پانی میں ڈوب گئیں۔ گلگت بلتستان میں مکئی اور چارے کی فصلیں بھی مکمل برباد ہو گئیں۔ خوبانی، چیری اور بادام کے باغات اْجڑ گئے۔ طوفانی لہروں نے سب کچھ ملیا میٹ کر کے رکھ دیا۔ گلگت میں سیلاب سے رابطہ پل بہہ جانے کے بعد بیسیوں دیہاتوں کا زمینی رابطہ کٹ گیا۔
وادی شگر کے گاوں وزیرپور میں گلیشیئر سے بنی جھیل ٹوٹنے سے پانی آبادی میں داخل ہوگیا۔ گلگت سکردو روڈ بھی ریلے کی زد میں آگئی۔ چترال میں دروش، گرم چشمہ، کوراغ، بونی اور مستوج میں گرے ہوئے گھر عمارتیں، تباہی اور بربادی کی داستان سنا رہی ہیں، دیامر، ہنزہ نگر میں بھی سڑکیں شدید متاثر ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں پاک فوج ،فلاح انسانیت فائونڈیشن سمیت دیگر رفاہی اداروں کے جوان متاثرین کی امداد کے لیے ریسکیو آپریشن میں مصروف ہیں۔ دریائے سندھ نے بھی مزید سینکڑوں آبادیوں کو لپیٹ میں لے لیا۔
Flood in Chitral
چشمہ سے سکھر تک دریائے سندھ کے قریبی سینکڑوں دیہات زیر آب اور ہزاروں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں دریا برد ہو چکی ہیں۔ ضلع مظفر گڑھ میں علی پور اور کوٹ ادو کے مزید 70 دیہات میں پانی داخل ہو چکا ہے جبکہ مزید ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں بھی تباہ ہو چکی ہیںکندیاں میں دریائے سندھ میں طغیانی سے علووالی کے قریب زیر تعمیر بند پانی میں بہہ گیا۔ کہروڑ لعل عیسن اور کوٹ مٹھن میں درجنوں دیہات پانی کی لپیٹ میں ہیں۔ جتوئی میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، کوٹ ادو کے سینکڑوں دیہات بھی سیلاب کی زد میں ہیں۔ ریلا شہر جدید کے حفاظتی بند سے ٹکرا گیا۔ رحیم یار خان میں چاچڑاں اور گردونواح میں بھی دریائے سندھ نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مذکورہ علاقوں میں بھی پاک فوج اور جماعة الدعوة کے رضاکار متاثرین کو ریسکیو کر رہے ہیں اور دور دراز علاقوں میں جاکر متاثرین سیلاب کو پکا پکایا کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔
جماعةالدعوة نے جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرہ ضلع لیہ کے مختلف علاقوں میں موٹر بوٹ سروس شروع کر دی ہے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضاکار کشتیوں کے ذریعہ متاثرین تک کھانا پہنچا رہے ہیں اور انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کیا جارہا ہے۔ایف آئی ایف کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف لیہ پہنچ کر خود امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کررہے ہیں۔ جماعةالدعوة کے رضاکاروں کی جانب سے ابتدائی طور پر لیہ کے نواحی علاقوں بستی چنڈیالہ، بستی ملانہ، بستی کالم ہانہ اور بستی چتروالہ کے علاقوں میں موٹر بوٹ سروس کا آغاز کیا گیا ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں گھرے سیلاب متاثرین کو ناصرف پکا پکایا کھانا فراہم کیاجارہا ہے بلکہ انہیں ان کے قیمتی سامان سمیت محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔اسی طرح کوٹ مٹھن اور روجھان میں بھی امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
چترال میں ایف آئی ایف کے رضاکار ریسکیو آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقے ڑوب میں بھی پکا پکایا کھانا تقسیم کیاجارہا ہے۔ لیہ کے سیلاب زدہ علاقوں بستی چانڈیا،بستی موہانہ ،ککڑ والا ،کْنل نشیب میں موٹربوٹ سروس کے ذریعے 450افراد کوان کے قیمتی سامان اور پالتو جانوروں سمیت سیلابی پانی سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔سکردو اور لیہ کے علاقوں میں فلاح انسانیت فائونڈیشن نے فری میڈیکل کیمپنگ کا بھی آغاز کر دیا ہے۔ماہر ڈاکٹرز و پیرا میڈیکل سٹاف پر مشتمل میڈیکل ٹیموں نے بدھ کو سینکڑوں مریضوں کا چیک اپ کیا اورہزاروں روپے مالیت کی ادویات فراہم کی گئیں۔جماعةالدعوة کے رفاہی ادارے فلاح انسانیت فائونڈیشن کی جانب سے حالیہ سیلاب میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے چترال میں امدادی سرگرمیوں کا دائرہ کا ر مزید وسیع کر دیا گیا ہے۔
انتہائی دشوارگزار راستوں کے باوجود امدادی سامان اور ایمبولینس گاڑیاں چترال کے سیلاب متاثرہ علاقوں دریش اوربونی میں پہنچا دی گئی ہیں۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں فوری بھرپور امدادی سرگرمیاں شروع کرنے اور کور کمانڈرز کو کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔ پا ک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف نے چترال اور ملک بھر میں سیلاب متاثرین کو ہر ممکن امداد فراہم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کور کمانڈرز اور فیلڈ کمانڈرز کو بھی متوقع سیلاب سے نمٹنے کیلئے تیار رہنے کا کہا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کی مسلسل چھٹے دن بھی شدید سیلاب سے متاثرہ چترال میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں، متاثرہ علاقوں میں 16 ٹن راشن تقسیم کیا جا چکا ہے۔ گرم چشمہ’ کوراکھ اور بمبوریت سے سیلابی پانی میں پھنسے 73 افراد کو بچا لیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر پاک فوج کے 2 ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر متاثرہ علاقوں میں ریلیف کے کاموں میں مسلسل مصروف ہیں۔ علاوہ ازیں کور کمانڈر پشاور نے چترال کا دورہ کیا اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پاک فوج کی امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔
Pakistan Army, Flood Relief
جنرل ہدایت الرحمان نے امدادی سرگرمیوں میں مصروف فوجی جوانوں کو شاباش پیش کی۔ اس علاقے میں پاک فوج کے جوان ہیلی کاپٹرز کے ذریعے متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں مصروف ہیں، متاثرین کو فوج کی جانب سے خوراک اور دیگر سامان بھی فراہم کیا جا رہا ہے اب تک ہیلی کاپٹرز کے ذریعے 8 ٹن خوراک فراہم کی گئی ہے۔پاک فوج،جماعة الدعوة ،فلاح انسانیت فائونڈیشن تو سیلاب متاثرہ علاقوں میں نظر آتی ہیں لیکن حکومت کہیں نظر نہیں آتی،قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے میںمسلم لیگ ن کی حکومت ناکام رہی ہے۔سیلاب ہرسال آتا ہے ، کوئی انتظام نہیں کیا جاتا۔ گلگت سے راجن پور تک عوام سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں مگر بیوروکریسی کے سب اچھا کی رٹ کو تسلیم کرکے حکمران خود بھی غفلت کی نیند سورہے ہیں۔ پاکستان کے عوام ہر دوسال بعد سیلاب کا شکار ہوتے ہیں، ان کی فصلیں تباہ اور جانور ہلاک ہوجاتے ہیں مگر مستقل بنیادوں پر ابھی تک اس کا حل تلاش نہیں کیا جاسکا۔ کالا باغ ڈیم کو بھی سیاست کی نذر کردیا گیا، جبکہ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ مسلم لیگ ن مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔
ابھی تک اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ حکومت سیلاب متاثرین کے لئے بر وقت اقدا ما ت کرتی تو اتنا نقصان نہ ہوتا۔ پنجاب حکو مت نے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو لاوارث چھوڑ دیا ہے،(ن) لیگ کی سیاست کا مقصد عوامی خدمت نہیں صرف ”میٹرو ”ہے ،پنجاب حکو مت کو سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد کیلئے “فو ٹو سیشن “نہیں جنگی بنیادوں پر منصوبہ بنانا ہو گا ورنہ عوام اور تاریخ انکو کسی صورت معاف نہیں کر یگی۔پنجاب میں جب بھی عوام پر کوئی آفات آتی ہیں تو حکمران انکے مسائل حل کر نے کی بجائے ”ہیلی کاپٹروں ” دوروں اور ”ویڈ یو کانفر نسز ”سے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں لیکن حکمرانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ عوام انکے جھانسے میں آنیوالے نہیں ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حکمران صرف باتیں کرتے ہیں ناکامیوں میں انکا کوئی ثانی نہیں ہے۔
دریائے سندھ کے بپھرے پانی سے لوگوں کی کھڑی فصلیں ، مال مویشی اور مکانات تباہ ہوگئے ہیں۔ متاثرین کی امداد کر نا ہرپاکستا نی کا فرض ہے۔ جس کے لئے ایثار و قربانی اور انصارین مدینہ کے جذبے کی ضرورت ہے۔ عوام زکوٰة ، صدقات اور عطیات سے بھی مدد کرسکتے ہیں۔ سیلاب متاثرین کی امداد کے حوالے سے حکومتی دعوے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ لوگ بے یارو مدد گار پڑے ہیں۔ ان کا خیال نہیں کیا جارہا۔قوم کو چاہئے کہ ہمیشہ کی طرح قدرتی آفات کے موقع پر بے سہارا و بے بس،مجبور لوگوں کی مدد کے لئے فلاح انسانیت فائونڈیشن جیسی تنظیموں کا ہاتھ مضبوط کریں۔