حالیہ ہونے والی شدید بارشوں کے بعد ملک میں سیلاب نے تباہی مچا کر رکھ دی ہے۔ سیلاب کی وجہ سے سب سے زیادہ پنجاب اور آزاد کشمیر متاثر ہوئے ہیں۔اس سیلاب کی وجہ سے اب تک درجنوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور سینکڑوں بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں ، ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں ملیا میٹ ہو چکی ہیں اور ہزاروں مویشی سیلاب کی بے رحم لہروں کی نظر ہو چکے ہیں۔
حکومت اورپاک آرمی سمیت دیگر فلاحی تنظیمیں سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے میدان میں آچکی ہیں لیکن سیلاب نے اس قدر بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے کہ ابھی تک بہت سے علاقوں تک حکومت اور دیگر فلاحی اداروں کی رسائی ممکن نہیں ہو سکی ہے اور ان علاقوں میں سیلاب متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی مقامات کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں ۔مشکل کی اس گھڑی میں پاک فوج کے جوان دن رات متاثرہ علاقوں میں اپنے فرائض سر انجام دے رہیں ہیں۔ سیالکوٹ میں ریسکیو آپریشن کے دوران لوگوں کو بچاتے ہوئے پاک فوج کا ایک جوان ڈوب کر شہید ہو چکا ہے۔
ہمارے ملک میں جب بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو حکومت اس آفت سے چھٹکارہ پانے کیلئے حفاظتی اقدامات اٹھانا شروع کردیتی ہے اور اس آفت کے گذر جانے کے بعد آئندہ کیلئے مستقل طور پر ایسی آفات سے نمٹنے کیلئے کوئی دیر پا حکمت عملی ترتیب نہیں دی جاتی ،یہی وجہ ہے کہ ملک میں جب بھی سیلاب یا دوسری قدرتی آفات نازل ہوتیں ہیں تو بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرتی آفات کا مقابلہ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک بھی نہیں کر سکتے لیکن ان ممالک کی حکومتوں کی جانب سے بہترین اور دیر پا حکمت عملی کی بدولت جانی اور مالی نقصان کم سے کم ہو تا ہے۔موجودہ صورت حال میں وفاقی اور پنجاب کی حکومتیں پوری کوشش کر رہی ہیں کہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی ہر ممکن مدد کی جا سکے گذشتہ روز وزیر اعظم پاکستان نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے اور سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی ہر ممکن مدد کا اعلان بھی کیا ہے۔
Pakistan Flood
دوسری طرف وزیر اعلی پنجاب بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کر رہے ہیں۔اور بذات خود امدادی کاموں کی نگرانی کر رہے ہیں ۔لیکن حسب راویت ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں سیلاب سے ہونے والے جانی ومالی نقصان پر اظہار افسوس کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی پوائینٹ سکورنگ میں بھی مصروف ہیں ۔قدرتی آفات کے بعد لاشوں پر اپنی سیاست چمکانا ہمارے سیاستدانوں کا وطیرہ بن چکا ہے ۔ بدقسمتی سے مخالفت برائے مخالفت اور تنقید برائے تنقید ہمارے ہاں سیاسی رواج بنتا جارہا ہے۔ایک طرف تو ملک میں سیلاب کی تباہ کاریا ں جاری ہیں تو دوسری طرف 14 اگست سے شروع ہونے والے لانگ مارچ اور دھرنوں کا سلسہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا،اس سیاسی صورت حال نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کر کے رکھا ہو ا ہے اور دھرنوں کا یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتاہوا نظر نہیں آتا۔ دن بدن یہ دھرنے آزادی اور انقلابی دھرنوں کی بجائے تفریحی دھرنے بنتے جا رہے ہیں اور اب تو باقاعدہ طور پر خیمہ بستیاں آباد ہونا شرع ہوگئیں ہیں ۔خان صاحب اپنا دھرنہ وزیر اعظم ھاوس کے سامنے سے لے کر واپس ڈی چوک پہنچ چکے ہیں اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگر واپس ڈی چوک پہ ہی جانا تھا تو پھر آگے بڑھنے کا مقصد کیا تھا۔
کیا آگے بڑھنے کا مقصد عوام اور سیکورٹی اداروں کے درمیان تصادم کروانا تھا ؟جو ہوا بھی اور اس کے نتیجے میں تین افراد جاں بحق ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے ۔علامہ طاہرالقادری صاحب بھی اپنا کنٹینر واپس ڈی چوک لے جانا چاہتے تھے لیکن ان کے مریدین ان کے اس فیصلے کے سامنے ڈٹ گئے اور انہوں نے واپس ڈی چوک جانے سے صاف انکار کر دیا ۔ان دھرنوں کو ختم کرانے کیلئے حکومت اور دھرنہ دینے والوں کے درمیان مذکرات بھی جاری ہیں جو کسی بھی نتیجے پر پہنچتے نظر نہیں آرہے ،کیوں کہ خان صاحب اور قادری صاحب وزیر اعظم کے استعفی سے کم کسی بات پر ماننے کوتیار نہیں اور حکومت اور اس کے اتحادی کسی بھی صورت وزیراعظم کا استعفی دینے کے حق میں نہیں ۔خان صاحب واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ مذکراتی کمیٹیاں مذکرات کرتی رہیں میں تو کسی صورت بھی وزیر اعظم کا استعفی لئے بغیر واپس نہیں جائوں گا ۔ایسی صورت میں مذاکرات صرف (مذاق رات) ہی ہوں گے ۔اور ان (مذاق رات) کا کوئی بھی مثبت نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا ۔ایسے حالات میں جب تقریبا آدھا ملک سیلاب میں ڈوبا ہو اہے اوردھرنہ دینے والی دونوں جماعتوں کیلئے فیس سیونگ کا بھی نادر موقع ہے کہ وہ ملک میں سیلاب کی صورت حال کے پیش نظر حکومت سے با مقصد مذکرات کر کے جہاں تک ممکن ہو سکے اپنے جائز مطالبات منوا کر اور اپنی ضد اور انا کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ان دھرنوں کو ختم کرنے کا اعلان کر دیں۔
بظاہر ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا دھرنے میں بیٹھی جماعتیں ہر حال میں اپنی ضد اور اور اپنی کھوکھلی انا کی فتح چاہتی ہیں،ان کو اس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے ،ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس وقت ملک میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے ،ان کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کے ان دھرنوں کی وجہ سے کئی ممالک کے سر براھان کے دور ے ملتوی ہو چکے ہیں ،سٹاک مارکیٹ کریش کر چکی ہے ،دن بدن ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔لیکن ہمارے عوامی و انقلابی لیڈران کو بھلا ان سب باتوں سے کیا مطلب ؟وہ تو ہر حال میں اپنی ضد اور اپنی انا کی تسکین چاہتے ہیں۔ یوں تو ہمارے سیاسی لیڈر عوام کی محبت کا دم بھرنے کے دعوے دار ہیں لیکن آج وہ عوام جو آئی ڈی پیز کی شکل میں اور سیلاب متاثرین کی شکل میں مشکلات میں گھری ہوئی ہے ایسے میں ہمارے سیاستدان عوام کے دکھوں کا مداوا بننے کی بجائے ایک دوسر ے سے دست و گریباں ہیں۔