ٹھاٹھیں مارتے سیلابی ریلوں نے پہلے وسطی پنجاب میں سب کچھ ملیا میٹ کیا۔ اب جنوبی پنجاب میں تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ علی پور کے علاقے خان گڑھ میں دوئمہ حفاظتی بند ٹوٹنے سے سیکڑوں دیہات زیر آب آ گئے ہیں۔ شجاع آباد میں بھی تین سو سے زائد بستیاں پانی کی لپیٹ میں ہیں۔ چالیس مکان بھی مٹی کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ دریائی کٹاؤ کے باعث شہر سلطان کے متعدد علاقے بھی سیلاب کی زد میں آ گئے۔ ٹھٹھہ سیال، مراد آباد اور بھٹہ پور سمیت مظفر گڑھ کے درجنوں علاقے بھی ڈوبے ہوئے ہیں۔
ڈیرہ غازی خان میں شیخانی کے مقام پر شوڑیا نالے کا بند ٹوٹنے سے بھی بڑا علاقہ زیر آب آ گیا۔ بڑا سیلابی ریلا اب ہیڈ پنجند سے سندھ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ دریائے سندھ میں بھی پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ راجن پور کے کئی دیہات بھی بْری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ سیلاب کا پانی گھوٹکی میں کچے کے علاقوں رونتی، آندل سندرانی اور قادر پور کے مزید پندرہ دیہات میں بھی داخل ہو گیا ہے۔ زمینی رابطہ منقطع ہونے کے باعث سیکڑوں افراد بھی پھنس کر رہ گئے ہیں۔سیلاب زدہ علاقوں میں پاک فوج، پنجاب حکومت کے علاوہ رفاہی و فلاحی تنظیموں جماعة الدعوة، فلاح انسانیت فائونڈیشن، الخدمت فائونڈیشن بھی بہت زیادہ کام کر رہی ہیں۔جماعة الدعوة کے ہزاروں رضاکار سیلاب زدہ علاقوں میں موجود ہیں۔
گزشتہ دنوں جماعة الدعوة اسلام آباد کی جانب سے بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایک ہزار خاندان کے لیے امدادی سامان روانہ کیا گیاتھا۔امدادی سامان میں آٹا چاول گھی دالیں چینی ادویات اور دیگر سامان خوردونوش شامل تھیں ۔ جماعةالدعوة کے رضاکار سیلاب سے متاثرہ ہر علاقے میںامدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ موٹر بوٹس کے ذریعہ سینکڑوں افراد کو ریسکیو کیا گیا ہے۔متاثرین کو انکے سامان اور مویشیوں سمیت محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے علاوہ پکی پکائی خوراک ، صاف پانی اور دیگر اشیاء تقسیم کی جارہی ہیں۔
جماعة الدعوة اسلام آباد کے امیر شفیق الرحمن کی قیادت میں 12رکنی وفد میں ناظم شعبہ تاجران یاسر بٹ ، فلاح انسانیت اسلام آباد کے ناظم محمد حسنین ، ناظم تعلقات عامہ شوکت سلفی کے علاوہ دیگر ذمہ داران ملتان کے علاقے شیر شاہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے متاثرین سیلاب میں امدادی سامان تقسیم کرنے کے علاوہ دیگر امدادی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا۔ واپس اسلام آباد پہنچنے کے بعد شفیق الرحمن نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے وسیع رقبہ تباہ ہو چکا ہے لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فصلیں تباہ ہو چکیں ہزاروں لوگ بے گھر ہیں کئی بستیوں میں ابھی تک میڈیا اور حکومتی ادارے نہیں پہنچ سکے جس کی وجہ سے وہاں امدادی سرگرمیاں بھی شروع نہیں ہو سکیں۔ اس سیلاب کی شدت 1992کے سیلاب سے بھی ذیادہ ہے تاہم حکومتی سطح پر خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے کے باعث ذیادہ رقبے پر تباہی آئی ہے۔ متاثرین میں بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔
Flood Victims
اتنے بڑے پیمانے پر تباہی سے نبٹنا صرف حکومت کا کام نہیں بلکہ ہر فرد کو اس میں حصہ ڈالنا ہو گا انہوں نے کہا کہ انسانیت کی خدمت سے بڑا کام کوئی نہیں ہو سکتا اس لیے تمام جماعتیں اپنے اپنے کارکنان کو امدادی سرگرمیوں کا حکم دیں۔حالیہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد اور بحالی کے لئے پنجاب حکومت نے چیف منسٹر فنڈ فار فلڈ ریلیف قائم کردیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ پنجاب کو تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا ہے جس سے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ اس قدرتی آفت سے متاثرہ افراد کی امداد ہم سب کی ذمہ داری ہے، اس سلسلے میں چیف منسٹر فنڈ فار فلڈ ریلیف قائم کردیا گیا ہے۔ جس میں پنجاب کابینہ اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی ایک ماہ کی تنخواہ دیں گے، وہ بیرون ملک پاکستانیوں اور ملک کے مخیر حضرات سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ متاثرین کی مدد کرکے ان کے دکھوں میں شریک ہوں۔واضح رہے کہ پنجاب میں حالیہ سیلاب کے باعث 20 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔پنجاب میں شدید سیلاب کی وجہ بارشیں اور بھارت کی طرف سے آبی حملہ ہے ۔حکومت کی سستی بھی صاف نظر آ رہی ہے،فلڈ وارننگ دے دی گئی تھی اس کے باوجود کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے گئے۔اگر حکومت پل اور میٹر و بنانے کی بجائے ڈیم بنا دے تو سیلابی پانی کو روکا جا سکتا تھا۔
کالاباغ ڈیم تعمیر نہ ہونے سے اربوں روپے مالیت کا نہ صرف میٹھا پانی ضائع ہورہا ہے بلکہ سیلابی صورتحال میں حکومت کیساتھ ساتھ عوام کا اربوں روپے مالیت کا نقصان ہونے کیساتھ ساتھ ہر سال کئی قیمتی جانیں سیلابی پانی کی نذر ہوجاتی ہیں۔ جب تک مفاد پرستی کی سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی مفاد میں نہیں سوچا جائیگا اس وقت تک ملک دشمن بھارت ہم پر کبھی فوجی اور کبھی آبی جارحیت کرتا رہے گا اس کا واحد حل یہ ہے کہ کالاباغ سمیت تمام ڈیمز ترجیح بنیادوں پر قائم کئے جائیں اور ڈیمز کے مسئلے پر کسی قسم کی سیاست کو خاطر میں نہ لایا جائے۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے نہ ہ صرف توانائی کا بحران ختم ہوگا بلکہ ملک میں معاشی خوشحالی بھی آئیگی۔ بھارت نے 1980ء سے اب تک 4 ہزار ڈیم تعمیر کیے ہیں، جن میں سے62 صرف مقبوضہ کشمیر میں تعمیر کیے گئے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں اب تک 2 ڈیم تعمیر کیے جاچکے ہیں۔ نئے ڈیموں کی تعمیر پر سیاست کی بجائے ملکی ضروریات کو مدنظر جائے ۔ پاکستان کو مستقبل کے مسائل دیکھتے ہوئے ایک نہیں متعدد ڈیم بنانے ہوں گے ۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سیلاب ہے۔ یہ پہلا سال نہیں گزشتہ پانچ برسوں سے پاکستان مسلسل تباہ کن سیلابوں کی زد میں ہے۔ چناب پر بگلیہار اور جہلم پر کشن گنگا جیسے بڑے پراجیکٹ کے علاوہ لداخ میں دریائے سندھ پر دنیا کا تیسرا بڑا ڈیم تعمیر کیا جارہا ہے۔ اگر بھارت نے لداخ ڈیم کی تعمیر مکمل کرلی تو پاکستان کی فصلیں اور آبادیوں محفوظ نہیں رہیں گی۔
بھارت تخریب کاری اور سازشوں کے ذریعے پاکستان کو اندرونی مسائل میں الجھاکر خطے کی گھبیر صورت حال سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ پاکستان اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کرتے ہوئے بھارت کے جارحانہ اقدامات کا راستہ روکے۔ ملکی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر صوبے میں نئے ڈیم تعمیر کیے جائیں۔ ڈیموں کی تعمیر پر سیاست کی بجائے ملک و قوم کے عظیم تر مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ ہماری برآمداد کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔ اگر زرعی زمینیں سیلاب کی زد میں رہیں گی تو پاکستان کی معیشت غیر مستحکم رہے گی۔حکومت کو بھارت سے دوستی کی بجائے آبی حملے کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے ڈیموں کی ہنگامی طور پر تعمیر کرنی چاہئے۔