حالیہ بارشوں اور بھارت کی طرف سے بار بار چھوڑے جانے والے پانی کے بعد سیلاب آنے سے پنجاب میں سب کچھ ملیا ملیٹ ہو گیا اور اب سیلابی ریلا سندھ کی طرف بڑھ رہا ہے،لاکھوں لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔حکومت ،رفاہی و فلاحی ادارے،پاک فوج سیلاب متاثرین کی مدد میں مصروف ہیں ۔کسے کے کام اور اسکے اخلاص پر شک نہیں کرنا چاہئے لیکن میڈیا رپورٹس تو کہہ رہی ہیں کہ سیلاب زادہ علاقوں میں افواج پاکستان کے بعد دوسرے نمبر پر رفاہی و فلاحی ادارے فلاح انسانیت فائونڈیشن،الخدمت فائونڈیشن ہیں جن کے رضاکار چوبیس گھنٹے اپنی جانوں پر کھیل کر متاثرین کو نہ صرف ریسکیو کر رہے ہیں بلکہ کھانا ،ادویات بھی دی جا رہی ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف ،وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی متاثرہ علاقوں کے دورے کر رہے ہیں لیکن حکومتی کیمپ صرف انکی موجودگی میں لگتا ہے انکی رخصتی کے بعد متاثرین جو امداد کی آس لگاتے ہیں انہیں کچھ بھی نہیں ملتااسی لئے اسلام آباد میں دھرنوں کے بعد اب سیلاب متاثرہ علاقوں سے بھی گونواز گو کے نعرے لگنا شروع ہو گئے،وزیر اعظم نے راولا کوٹ، سرگودھا میں یہ نعرے سنے اور جب وزیر اعظم ملتان گئے تو وہاں بھی یہی کیفیت رہی۔ وزیراعظم نوازشریف کے دورہ شیرشاہ فلڈ ریلیف کیمپ کے ختم ہوتے ہی جونہی وزیراعظم نوازشریف واپسی کیلئے روانہ ہوئے تو امداد کا واضح اعلان نہ ہونے’ جانوروں کیلئے چارہ اور خوراک نہ ملنے پر سیلاب متاثرین سراپا احتجاج بن گئے۔
اس موقع پر سیلاب متاثرین نے ”گو نواز گو” کے زبردست نعرے لگائے۔ سیلاب متاثرین نے صوبائی وزیر چودھری عبدالوحید آرائیں کو گھیر لیا اور ان پر برس پڑے۔ بعدازاں حلقہ 199 کے ایم پی اے ملک محمد علی کھوکھر کیخلاف نعرے بازی کرتے ہوئے انکی گاڑی کو بھی گھیر لیا۔ مظاہرین نے جانوروں کے چارا’ فلڈ ریلیف کیمپوں میں خوراک و ادویات کی عدم فراہمی پر شدید احتجاج کیا۔ اس دوران صوبائی وزیر نے بھی ان سے سختی سے بات کی اور مظاہرین کی جانب سے جواباً سخت رویہ کے بعد فوری گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔ بعدازاں مظاہرین نے ایم پی اے ملک محمد علی کھوکھر کے خلاف نعرے لگائے اور کہا جب سے سیلاب میں وہ پھنسے ہیں ایم پی اے نے شکل تک نہیں دکھائی۔ اس دوران ریلوے پھاٹک کی جانب سے ایم پی اے ملک محمد علی کھوکھر اچانک واپس آگئے۔
اس دوران مظاہرین نے انکی گاڑی کو بھی گھیر لیا اور نعرے بازی شروع کر دی۔ ملک محمد علی کھوکھر نے کہا میں خود دن رات یہیں پر ہوں۔ تمام متاثرین کو وافر چارہ اور خوراک فراہم کی جائیگی مگر مظاہرین نے انکی بات سننے سے انکار کر دیا اس پر وہ بھی فوری گاڑی نکال کر موقع سے چلے گئے۔ ملتان میں کشتی الٹنے سے جاں بحق ہونے والے خاندان کے لواحقین وزیراعظم کا انتظار کرتے رہ گئے، نواز شریف متوفی دولہا کے گھر نہ گئے بلکہ متاثرہ خاندان کے لئے کسی قسم کا اعلان کئے بغیر ہی واپس چلے گئے۔ نواز شریف کے ملتان دورہ کے حوالے سے میڈیا کو اطلاعات فراہم کی گئیں تھیں کہ وزیراعظم شیر شاہ بند کے معائنہ کے بعد کشتی حادثہ میں جاں بحق ہونے والے دولہا زاہد کے گھر جائیں گے مگر نواز شریف نہ گئے۔ متاثرہ خاندان نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
حکومتی سربراہان کے دورے تو ہیلی کاپٹروں پر چل رہے ہیں،فوٹو سیشن بھی ہو رہے ہیں لیکن متاثرین کو حکومتی امداد ماضی کی طرح کہیں ملتی نظر نہیں آتی یہی وجہ ہے کہ امداد نہ ملنے پر سرگودھا روڈ، اڈہ پکے والا پر 4سو کے قریب سیلاب متاثرین نے جھنگ سرگودھا روڈ بلاک کر دی اور 2 گھنٹے ٹریفک معطل رہی۔ سیلاب متاثرین نے کہا پکے والا اور نواحی علاقہ جات کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ ہمارے گھر، سامان اور مویشی سیلاب کی نذر ہوگئے لیکن کوئی امدادی ٹیم ہم تک نہیں پہنچی۔ تین دن ہو گئے ہیں حکومت کی طرف سے کھانا، خیمے، ادویات سمیت کوئی امدادی چیز نہیں مل رہی جس کی وجہ سے ہمارے بچے رات کو کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہیں اور مختلف بیماریوں، نمونیا، موسمی بخار، قے وغیرہ میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
Flood Victims
سینکڑوں سیلاب متاثرین دو روز سے اپنے مسیحا کے منتظر رہے، نہ آنے کی صورت میں مایوسی کے عالم میں “گو نواز گو “کے نعرے لگا دیئے۔ شہباز شریف نے راوی میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ افراد کی حالت زار دیکھنے کیلئے ہیڈ سدھنائی آنا تھا جبکہ سیلاب سے متاثرہ سینکڑوں افراد فلڈ ریلیف کیمپوں میں اپنے مسیحا کے مسلسل دوروز سے منتظر تھے وزیر اعلیٰ کی آمد کے پیش نظر ڈویڑن بھر کی انتظامیہ نے سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات بھی کر رکھے تھے اور ضلع سے منتخب مسلم لیگ ن کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی متاثرین کو آگاہ کرتے رہے وزیراعلیٰ پنجاب ہر صورت ان کی حالت زار کو دیکھنے کیلئے آئیں گے اور امداد کا اعلان کریں گے۔ رات کی تاریکی چھا جانے پر متاثرین کو جب وزیراعلیٰ کا دورہ ملتوی ہونے کی اطلاع دی گئی
تو انہوں نے شدید مایوسی کے عالم میں “گو نواز گو”کے فلک شگاف نعرے بلند کر دیئے جبکہ کچھ افراد نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے حق میں نعرے بازی کی۔اور تو اور اب حالات ایسے بن چکے ہیں کہ عوام نے جن کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں پہنچایا وہ بھی منظر عام سے غائب ہیں،بچے بھوک سے مر رہے ہیں،وبائی امراض پھیل رہے ہیں ۔کھانے کو کچھ نہیں لیکن اراکین اسمبلی حلقوں سے غائب ہیں ۔جمشید دستی کے ساتھ بھی جو کچھ ہوا وہ اراکین اسمبلی اور حکمرانوں کے لئے ایک مثال ہے۔ مظفرگڑھ کے بھٹہ پور چوک میں درجنوں سیلاب متاثرین نے رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کیخلاف مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی گاڑی پر پتھرائو کرکے اس کے شیشے توڑ ڈالے۔
جمشید دستی گاڑیوں کے قافلے کے ہمراہ مظاہرین کے پاس سے گزر رہے تھے کہ مشتعل افراد کے نرغے میں آگئے۔ مظاہرین نے جمشید دستی کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا تاہم جمشید دستی اپنی جان چھڑانے میں کامیاب رہے اور موٹر سائیکل پر بیٹھ کر وہاں سے نکل گئے۔ مظاہرین نے الزام لگایا کہ جمشید دستی نے مظفر گڑھ کو بچانے کیلئے پانی کا رخ تبدیل کرایا اور ان کی زمینیں ڈبو دیں۔ دستی نے مناسب وقت پر دوآبہ بند توڑنے نہ دیا جس سے ہمارے گھر ڈوب گئے۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ان پر لاٹھی چارج کیا۔ جمشید دستی کا کہنا تھاکہ ان پر مسلم لیگ ن کے گلو بٹوں نے حملہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ بند توڑ کر میرے حلقہ کو ڈبو دیا گیا۔ میرے حامی متاثرین سیلاب کو امداد بھی نہیں فراہم کی جارہی، چیف جسٹس آف پاکستان صورتحال کا نوٹس لیں۔تحصیل اٹھارہ ہزاری میں سلطان باہودربار روڈ کے مضافات پانی میں ڈوب گئے۔5 روز بعد بھی کوئی سرکاری اہلکار سیلاب میں پھنسے ہوئے مکینوں کے لئے امداد لے کر نہیں پہنچا۔ مقامی آبادی کے پٹواری نے ضلعی انتظامیہ سے ملنے والی امداد متاثرین میں تقسیم کرنے کی بجائے اپنوں میں تقسیم کردی۔پنجاب حکومت سلطان باہو روڈ پر واقع علاقوں حسین آباد،لاشاری پمپ و دیگرآبادیوں کے سیلاب میں پھنسے مکینوں کو امدادکی فراہمی یقینی بنائیں۔ اٹھارہ ہزاری کے علاقہ میں حالیہ بدترین سیلاب نے تباہی مچادی ہے وہاں پرابھی تک کوئی بھی امداد پہنچائی نہیں گئی
Flood Victims
جس کی وجہ سے سیلاب میں پھنسے دیہاتی بھوک، ادویات و دیگر ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔ سیلاب متاثرہ جس علاقے میں جائیں وہاں حکومتی بے حسی کی واضح تصاویر نظر آتی ہیں اب سیلاب متاثرہ علاقوں سے اٹھنے والی آواز”گونواز گو” میاں صاحب اپنے لئے خطرہ سمجھیں یہ سیاسی لوگ نہیں جن کے منہ سے آوازیں نکل رہی ہیں بلکہ اسوقت شدید مصیبت میں گھرے ہیں،انکے نام پر سیاست کرنے والے ذرا سوچیں اگر حکومت انکی مدد نہیں کرے گی تو جس طرح گو نواز گو کا نعرہ بلند ہو رہا ہے آئندہ انتخابات میں ان علاقوں میں ”گونوز گو” ہی نہ ہو جائے اور پنجاب بھی مسلم لیگ(ن) کے ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔