کراچی (جیوڈیسک) فلورملز کی ہڑتال کا دائرہ کارپنجاب تک وسیع ہو گیا ہے، پنجاب کی فلورملوں نے سندھ کی فلورملز کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے منگل کو 4 گھنٹے کی علامتی ہڑتال کا اعلان کردیا، سندھ کی فلورملز کو درپیش مسائل ایک ہفتے میں حل نہ کیے گئے تو پورے ملک کی فلورملز بند کر دی جائیں گی۔
یہ فیصلہ منگل کو لاہور میں پاکستان فلورملزایسوسی ایشن (پی ایف ایم اے) کی منعقدہ سینٹرل ایگزیکٹوکمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا جس میں حکومت سندھ کی گندم اور آٹے کی نقل و حمل پر پابندی کوغیرآئینی قراردیتے ہوئے پنجاب واندرون سندھ سے گندم کی ترسیل کے دوران سرکاری اداروں کی بھتہ خوری کے خلاف منگل کو پنجاب بھرکی فلورملیں دوپہر 1بجے سے شام 4 بجے تک علامتی طورپربند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس کے بعد پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے سینٹرل چیئرمین میاں محمودحسن نے بتایا کہ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اجلاس میں چاروں صوبائی چیئرمین کے علاوہ فلور ملنگ انڈسٹری کے منتخب نمائندوں اورفلورملز مالکان کی بڑی تعداد نے شرکت کی جنہوں نے متفقہ طور پر حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک بھر میں گندم کی یکساں امدادی قیمت مقرر کرے، حکومت سندھ کی جانب سے گندم وآٹے کی نقل وحمل پرپابندی ختم کرائی جائے۔
اندرون سندھ سے کراچی آنے والی گندم اور سندھ کے راستے پنجاب سے بلوچستان جانے والے آٹے اور گندم کے ٹرکوں کو روک کر ان سے سرکاری سرپرستی میں وصول ہونے والے بھتوں کو ختم کرنے کے علاوہ افغانستان کے لیے گندم کی مصنوعات برآمد کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی دورکی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر سندھ حکومت کی ناجائز اور غیر آئینی پابندیاں ختم نہ کی گئیں تو احتجاج کا دائرہ کارآئندہ ہفتے سے پورے ملک تک پھیل جائے گا۔
میاں محمودحسن نے کہا کہ وفاقی حکومت نے گندم کی امدادی قیمت1200 روپے فی من مقرر کی ہوئی ہے جبکہسندھ حکومت نے چند بیوپاریوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے گندم کی امدادی قیمت 1250 روپے من مقرر کی ہوئی ہے جوبنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، اگر بوائی کے وقت اس قیمت کا اعلان کیا جاتا توکاشت کارمستفید ہوسکتے تھے لیکن اب اس کا فائدہ صرف اور صرف گندم کے ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خور بیوپاریوں کو ہو گا۔ انہوں نے بتایاکہ افغانستان پاکستانی گندم کی مصنوعات کی پرانی اوربڑی مارکیٹ ہے اورتقریباً ایک صدی سے پاکستان افغان مارکیٹ میں گندم کی مصنوعات برآمد کررہا ہے۔
انہی عوامل کے سبب پاکستانی فلورملزاورایکسپورٹر نے افغانستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ میاں محمود حسن نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے چند ماہ قبل افغانستان کے لیے گندم مصنوعات کی برآمدات کو فارم ای اور امریکی ڈالر سے مشروط کرنے کے باعث افغانستان کے لیے پاکستانی گندم مصنوعات کی برآمدی لاگت 6 فیصد بڑھ گئی ہے جس کے نتیجے میں افغانستان کے لیے پاکستانی گندم پروڈکٹس کی برآمدی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہیں اوربھارت کی جانب سے سبسڈائزقیمت پرگندم کی فراہمی کے نتیجے میں افغان مارکیٹ میں بھارت کی اجارہ داری قائم ہوتی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغان مارکیٹ کو قابو میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت پاکستان افغان مارکیٹ میں گندم پروڈکٹس کی ایکسپورٹ پرفارن کرنسی کی شرط کو فی الفور ختم کرے۔ انہوں نے بتایا کہ افغان مارکیٹ کے لیے گندم پروڈکٹس کی برآمد کو فارن کرنسی سے مشروط کرنے کے نتیجے میں پاکستانی انویسٹرز کا اربوں روپے کا سرمایہ ڈوب جائے گا لہٰذا حکومت سے مطالبہ ہے کہ افغانستان کو گندم کی مصنوعات پاکستانی کرنسی میں کرنے کی اجازت دے۔