تحریر: شاہ بانو میر پینو کے چھوٹے سے کچن میں ساگ پک رہا تھا وہ آٹا گوندھ کرساتھ پڑی چاٹی سے مکھن نکال کر حفاظت کے خیال سے ذرا کی ذرا کچن میں رکھنے گئی اندر گئی تو ساگ بھی خشک ہو چکا تھا پینو نے ساگ کو گھوٹ دیا – اتنے میں ایک کوا منڈیر سے نیچے آیا اور چونچ میں آٹا لے کر یہ جا وہ جا برکتے بیبی نے پینو کو آواز دی اری پینو آٹا سنبھال کوا لے گیا پینو نے کچن سے باہر آکر ہاتھوں کا چھجا سا بنا کر تیز چمکتی دھوپ میں منڈیر پر بیٹھے کوے کو دیکھا اور ہنستے ہوئے بولی کاگا جی !! یہ آٹا میرے شوہر اور دیور کے کھیت کا ہے تم لے جا سکتے تھے ذرا میرے بھائیوں کے کھیت کا بھی کبھی لے سکے ہو؟ برکتے کو بہو کی یہ بات ناگوار گزری پینو بہت محنت کرنے والی لڑکی تھی ساس کو گھر آتے ہی مہندی چھوٹے بغیر یہ کہہ کر بٹھا دیا کہ بس ماں جی اب میں آگئی آپ بس دعائیں کیا کرو قرآن پڑھا کرو کہ گھر میں برکت ہو –
ایسی اچھی بہو برکتے دن رات اللہ کا شکر ادا کرتی کہ اسکے بیٹوں کو دھلے دھلائے استری کئے کپڑے ملتے کھانا اچھا اوروقت پے ملتا سب کا احساس کرتی تھی اسکی بہو . اتنی خوبیوں کے بعد ایسی چبھتی ہوئی بات جیسے برکتے کے سینے میں پھانس بن کر چبھ گئی مغرب کی اذان سے پہلے بیٹے آئے تو اس نے اُن سے ذکر کیا کہ بھابھی نے آج ایسا کہا پینو کے شوہر کو پتہ تھا کہ پینو کے بھائی مشہور ہیں دوگنی فصل کی وجہ سے اس نے بات کو بڑہائے بغیرعام لہجے میں پینو سے پوچھا کہ پینو تم نے ایسی بات کی پینو دلیرکڑی تھی ڈرنا صرف اللہ سے سیکھا تھا بے خوفی سے بولی ہاں شوہر نے پوچھا کہ آخر ایسا کرتے ہیں اس کے بھائی جو وہ نہیں کرتے اور کوا آٹا لے گیا پینو نے جواب دیا اس بار جب زمین کو تیار کرنا ہو گا تو ہل چلاتے ہوئے اسے بلایا جائے وہ بتائے گی کہ وہ کیا دیکھتی تھی کیسا تجربہ کرتے تھے اس کے بھائی زمین سے دوگنی فصل حاصل کرنے کیلئے کچھ ہفتوں کے بعد زمین کو نئی فصل کیلئے تیار کرنا شروع کیا تو پینو کو اس کے دیوروں نے بلایا پینوان کا کھانا لے کر گئ .اور لسی کی گھڑولی جب لسی سے خالی ہو گئی تو اسکو اٹھا کر کھیت کی جانب گئی وہاں جا کر ہل کی ہوئی زمین میں اسے اونچا اٹھا کرنیچے پھینک دیا –
Harvest
گھڑولی زمین کے اوپر ہی ٹٍک گئی پینو نے شوہر کی جانب دیکھا اور کہا اوہوں کل پھر ہل چلاؤ میں کل پھر آوں گی شوہر اور دیور خاموش ہو گئے دوسرے دن پینو پھر گئی گھڑولی پھینکی اس بار گھڑولی آدھی اندر چلی گئی پینو نے نفی مین سر ہلاتے ہوے ناپسندیدگی کا اظہار کیا دن بھر محنت کرنے وہ بھائی بہت مایوس ہوئے کل پھر آؤں گی پینو یہ کہہ کر گھر لوٹ گئی تیسرے دن گئی جیسے ہی اس نے گھڑولی پھینکی گھڑولی ساری کی ساری زمین میں جیسے گم سی ہو گئی پینوکا چہرہ خوشی سے تٍمٍتما اٹھا بولی ہاں شاباش اب بیج ڈالو اور کچھ مہینوں بعد جب فصل تیار ہوئی تو اس بار فصل کی شان ہی الگ تھی سنہرا لہلہاتا کھیت باقی سب کھیتوں سے نمایاں اور گنجائش کے حساب سے اس بار ہمیشہ سے زیادہ فصل حاصل ہوئی پینو کے دیور خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے سارا گاؤں ان کو سراہ رہا تھا مُبارکیں دے رہا تھا – برکتے اس کامیابی کو بہو سے ملا کر دن رات اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی کہ ایسی خیر خواہ بہو اللہ نے دی فصل کی کٹائی سے بکنے تک منافع ہی منافع نظرآ رہا تھا – اسی فصل کا آٹا چکی سے پٍس کر آیا اور پینو بڑے چاؤ سے اسے گوندھ کرکچن میں ہانڈی کو ایک نظر دیکھنے گئی –
اسی اثنا میں کوا آیا اور پرات میں چونچ ماری مگر اس بار یہ آٹا ایسا تھا جیسے کوئی گوندھ کی طرح ریشہ ریشہ آپس میں ملا ہو وہ چونچ بھرنے میں ناکام رہا اسی اثنا میں پینو اندر باہر آئی اورمسکرا کربولی کاگا جی اس بار آٹا نہیں لے جا سکتے میرے دیوروں کی اور شوہر کی کڑی دھوپ میں کڑی مشقت کا نتیجہ ہے یہ آٹا گاؤں کی سادہ سی لڑکی نے ایک گھر میں محنت کا سبق عام کر کے اس گھر کی کامیابی کو بڑھا کر خود کو منوا لیا – دعائیں الگ لیں کنبے کی عزت الگ دوسروں میں بڑہائی اور خوشحالی الگ گھر آئی اس میں دو اہم چیزیں ہیں کبھی کسی کی بات کو نظر انداز نہ کریں خاص طور سے جو آپ سے مخلص ہے دوسری اہم بات کہ کسی کیلئے اچھا کرنے پر ہمیں سچی دعاؤں کا تحفہ بے شمار ملتا ہے جس کی آج کی دنیا میں بہت اہمیت ہے -آٰئیے ایسے ہی ایک دوسرے کیلئے مفید بنے ایک دوسرے کی ترقی سے خوش ہوں اور جو آپکو علم ہے ترقی کا راز وہ آپ دوسروں کو بتائیے اور جو دوسروں کو پتہ ہو وہ آپکو بتائیں اسی طرح بنے گا کامیاب مضبوط پاکستانجب کوئی کبھی بھی ہماری سچی کھری محنت سے حاصل شدہ منافع کو نہ لے جا سکے اس وطن عزیز کی پاک زمین سے نہ کوا نہ دشمن