مسلم لیگ ن نے 2010 میں پنجاب اسمبلی میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی قرارداد منظور کی لیکن عملا اس پہ کچھ نہ کیا۔ اسکے آٹھ سال بعد (سابقہ الیکشن سےدوماہ قبل) چند ن لیگی ارکان اسمبلی کو اچانک یاد آتا ہے کہ جنوبی پنجاب کی محرومیاں تو دور ہوئیں ہی نہیں، لہذا یہ گیارہ ارکان اسمبلی ن لیگی سے منحرف ہوکرجنوبی پنجاب صوبہ محاذ بناتے ہیں اور خسرو بختیار کی زیرقادت ن لیگ سے بغاوت کردیتے ہیں اور تحریک انصاف انکو بڑی خوشی سے اپنی پارٹی میں لے لیتی ہے اور یوں جنوبی پنجاب آئندہ ضرورت پڑنے تک ایک بار پھر کاغذات میں دفن ہوجاتا ہے۔
دوسری کہانی، 2020 کے اوائل میں گندم کے بحران کے باعث آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو ہوجاتی ہے اورچینی 40 فیصد اضافے کے ساتھ 55 روپے سے80 روپے فی کلو پرچلی جاتی ہے۔ اپوزیشن کے مطابق حکومتی افراد نےچینی کی ایکسپورٹ کے نام پر حکومت سے اربوں روپے کی سبسڈی لے کر52 فیصد چینی افغانستان ایکسپورٹ کرنے کا ڈرامہ کیا گیا جو کہ صرف کاغذات پہ ہوا اور مقامی مارکیٹ میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے یہی چینی مہنگے داموں بیچی اور دونوں سے پیسہ بنایا۔
ان دونوں کہانیوں کا تعلق بتانے سے پہلے، اپنے قارئین کو سبسڈی کا مفہوم سمجھاتا چلوں، دیکھیئے چینی کی ایکسپورٹ کا سادہ مطلب یہ ہے کہ اس بحران کے وقت شوگر ملیں ملکی ضرورت سے زیادہ چینی پیدا کررہی تھیں، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ طلب اور رسد کے قانون کے مطابق چینی سستی ہوجاتی جو کہ نہیں ہوئی، لیکن اسکے بجائے مل مالکان کو الٹا یہ سہولت فراہم کی گئی کہ وہ اپنے گوداموں میں ذخیرہ کی گئی چینی بیرون ملک بیچیں۔ کیونکہ مل مالکان کا دعوی تھا کہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں چینی کی مناسب قیمت نہیں مل رہی لہذا حکومت نے انہیں امدادی رقوم دیں تاکہ وہ بیرون ملک اپنی چینی بیچ سکیں، اس رقم کو سبسڈی کہا جاتا ہے۔
واجد ضیا کی قیادت میں کام کرنے والے چھ رکنی انکوائری کمیشن نے یہ واضع کیا ہے کہ حکومتی شخصیات نے اپنے اثرورسوخ اور فیصلہ سازی میں اہم کردار ہونے کی وجہ سے کیسے کم وقت میں زیادہ سبسڈی حاصل کرکے بہت ہی کم وقت میں کروڑوں کا منافع بنایا۔ آٹے کے متعلق تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرکاری افسران اور اہم سیاسی شخصیات کی ملی بھگت سے آٹا بحران باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا گیا اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی دوسری بڑی وجہ تھی۔
ان دونوں بحرانوں پہ ایف آئی اے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ فائدہ اٹھانے والوں میں تحریک انصاف کے اہم رہنما خسرو بختیار(کے قریبی رشتہ دار) اورجہانگیرترین شامل ہیں جو ہماری دونوں کہانیوں کے مرکزی کردار ہیں رپورٹ کے مطابق یہ دونوں چینی بحران کے زمہ دار قرار بھی ہیں اور دونوں نے چینی کی قیمت بڑھنے اور سبسڈیز کے حصول کے بالواسطہ یا بلا واسطہ کروڑوں روپے بنائے۔ اگرچہ انکے علاوہ مونس الہی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہیں لیکن چونکہ موجودہ وزیراعظم، عمران خان کا بطور اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے خلاف یہی مقدمہ رہا ہے کہ دونون بڑی جماعتوں کی قیادت کرپٹ ہے اور اسی پاپولر نعرے کی بدولت وہ الیکشن جیتے اور مسند اقتدار تک پہنچی ہے لہذا ہم اس پہ ہی زیادہ بات کریں گے۔
واجد ضیا رپورٹ کے مطابق 2018-19 کے دوران سب سے زیادہ فائدہ جہانگیرترین کو دیا گیا جنہیں کل دی گئی سبسڈی کا 22.52 فیصد یعنی 56 کروڑ سے زائد سبسڈی ملی جبکہ خسرو بختیار کے قریبی رشتہ دارکو 45 کروڑ سے زائد سبسڈی ملی۔ اور ظلم یہ کہ ان شوگر ملز کو سبسڈی ایک ایسے وقت پر دی گئی جب مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا یعنی قانونا سبسڈی دی ہی نہیں جاسکتی تھی اور رپورٹ کے مطابق شوگر ملز نے باقاعدہ منصوبے کے تحت ملز بند کرنے کا اعلان کیا اور بعد میں سستے داموں گنا خریدا لیکن چینی پھر بھی مہنگی بیچی۔
جی ہاں، یہ وہی جہانگیر ترین ہیں جنہوں نے 2002 میں سیاست شروع کی تو پہلے مشرف اور بعد میں شہباز شریف نے زراعت کیلٸے ٹاسک فورس کا سربراہ بنایا اور جن کی شوکت عزیز کی کیبینٹ میں وزیر صنعت بننے سے پہلے(1992 میں لگاٸی گئی) صرف ایک شوگر مل تھی۔ وزیر بننے کے بعد اُنہوں نے دو نئی شوگر ملیں قائم کیں اور باقی دو شہباز شریف کے دورجبکہ ایک موجودہ حکومت بننے سے تین ماہ پہلے لی اور آج انکی آٹھ ملیں ہیں۔ جی جی، یہ وہی جہانگیر ترین ہیں جو سابقہ الیکشن سے چند ہفتے قبل اور بعد میں پیسوں سے بھرا جہاز لے کر نکلتے اور واپسی پہ نئے ارکان اسمبلی بھرکر لاتے جنہیں عمران خان بڑی خوشی سے PTI کا مفلر پہناتے اور یہ لوگ قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں اپنی جیت یقینی بنالیتے یا اپنی جیتی ہوئی نشست عمران خان کی جھولی میں ڈال دیتے۔ درحقیقیت عمران خان کو سیاسی گھوڑوں کی خریدوفروخت کی کرپشن میں لانے والا جہانگیر ترین ہی ہے جس کے جہاز اور دولت نے ارکان اسمبلی خرید خرید کر عمران خان کو وزیراعظم بنوایا۔
خسرو بختیار اور جہانگیر ترین کی کہانی یہ بتاتی ہے کہ بہت سے دیگر چور دروازوں کے علاوہ یہ بھی ہمارے سیاسی نظام میں موثر ترین طریقہ واردات ہے، مزید یہ کہ واجد ضیا کی رپورٹ عجب کرپشن کی غضب کہانی تو سناتی ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتی ہے کہ جب تک ہمارے سیاسی نظام کے چور دروازے بند نہیں کیے جاتے یہ دھندہ یونہی جاری رہے گا۔ یہ طاقتور یونہی ملک کھاتے جائیں گے اور عوام کے حقوق انکی تجوریوں کی نظر ہوتے رہیں گے، اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان جیسا آئیڈیلسٹ ہیرا بھی نمک کی کان میں آکے نمک ہونے پہ مجبور ہوچکا۔ سابقہ سالوں کا مشاہدہ آپکو بتائے گا کہ کیسے سیاسی منظر عام پہ عمران خان اخلاقیات کا جھنڈا اٹھائے سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کی کہانیاں سناتے تحریک انصاف کی قیادت کرتے رہے جبکہ پردے کے پیچھے جہانگیر ترین انتخابی گھوڑوں کو تحریک انصاف کے اصطبل میں جمع کرتے رہے۔ دن کے اجالے میں عمران خان سٹیج پر کھڑے ہو کر سیاسی حکومتوں کے لتے لیتے رہے اور رات کے اندھیروں میں جہانگیر ترین کا جہاز اور دولت سیاسی مخالفین کو انکی جماعتوں سے توڑتے رہے، کیونکہ اس نظام میں بالاخر حکومت بنانے کا یہی طریقہ ہے کہ وہ دوسو خاندان جو ہمیشہ حکومت میں رہتے ہیں جدھر وہ اپنا وزن ڈال دیں حکومت ادھر ہی بنتی ہے۔
موجودہ حکومت میں امور مملکت چلانے کی اہلیت تو تھی ہی نہیں لیکن آٹے چینی سکینڈل کے بعد اب وہ کرپشن کی گنگا میں بھی نہاچکے، لب لباب یہی ہے کہ سیاسی نظام کے چور دروازے بند کیے بغیر نہ کوئی تبدیلی لانا ممکن ہے اور نہ اس ملک کی ناو کو کنارے لگانا۔