تحریر : بائو اصغر علی موسیقی کو روح کی غذا کہا جاتا ہے سوزو گداز بھری آواز جسم کی ترنگوں اور امنگوں کو جگاتی ہے مد بھری دھنیں دلوں کو چھو کر نئی تازگی اور فرحت کا احساس دلاتی ہیں پاکستان کے نامور گلوکار شہنشاہ غزل کے بارے میں انڈین کلا کارلتا جی کہتی ہیں ” مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے ”وطن عزیز کی دھرتی میں ملکہ ترنم نورجہاں ،شہنشاہ غزل مہدی حسن ،شوخ وچنچل احمد رشدی ،رونا لیلی ،مہناز ،ناھید اختر ،عنایت حسین بھٹی ،مسعود رانا ،اخلاق احمد جیسے گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگا کر شائقین موسیقی کو محظوظ کیا گزشتہ دنوںفوک گیتوں کا ایک اور باب بند ہو گیا، فوک گلوکاری کے میدان میں پوریا دنیا میں پنجاب کا شیر کہلاوانے والا گلوکار راشد علی بھی خالق حقیقی سے جا ملا، یوں تو راشد علی کے بے شمار گیت سپر ہٹ ہوے مگر آج جب وہ دنیا سے مسافر ہو گیا تو اس کا معروف گیت ،،اچے اچے محل تیرے تھلے نی ساڈے ڈیرے،تیرے دم دیا خیرہ منگا اسی مسافر تیرے یاد ،،آیا یہ راشد علی کی زندگی کا پہلا شہکارگیت تھا جس نے پوری دنیا میں فوک کیت سننے والے شائقین کے دلوں پر راج کیا۔
اس سے پہلے راشد علی کے لوکل لائیول پہ گیت ریکارڈ ہوے مگر کامیاب ہونے میں ناکام رہے ،پھر اس گیت نے 2004ء میں راتوں رات راشد علی کی زندگی بدل دی فوک گیتوںمیں سے پاکستان کے ہر علاقے سے ،،اچے اچے محل ،، کی آواز آنے لگی پھر اس کیبعد ،،ماہی دے نین نشیلے تے سوہنی گل وچ گانی ،، نے بھی اسی طرح پوری دنیا میں دھوم مچائی رکھی ،اس کے بعد راشد علی کے کچھ البم اتنے کامیاب نہ ہوسکے کچھ عرصے کے بعد راشد علی نے 2006ء میں پھر محلوں کی یاد تازہ کی جب اس کا گیت ،، محلا ں دیئے رانیے تو محلاں وچ رہوں،،منظر عام پر آیا تو راشد علی کے چرچے ہونے لگے پھر ”پیار دی کہانی سر عام ہوگئی ،،اگ لاوا ںہار شنگا را نو ں میں پنڈھ دردا دی چائی اے ،،یا تے سانوں بھل گیا ماہی یا ہوسی مجبور،،اسا تیرے نال لایاں نی سوہنیے اسا تیرے نال لایاں،، اسی وی عشقاں دے مارے نی،، اور بہت سے شہکار گیت سپر ہٹ گئے ،،راشد علی کے چاہنے والوں ،،وے میں رہواں وینیاں میرا ڈھول ہجے نہیں آیا ،، بھی کبھی نہیں بھول سکے گا، اشد علی واحد لوک فنکار گلوکار تھے جو منصور ملنگی ،عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی ،اللہ دتہ لونے والا اور اکرم راہی کے بعد پوری دنیا میں مقبول ہوئے۔
اس کے بعد اسی شہرت کسی اور فوک گلوکار کو نصیب نہ ہو سکی ،راشد علی میرا بڑا پیارادوست تھا میری اس کی اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی ایک بار میں نے راشد علی سے پوچھا کہ یار آپ کی آواز اور شاعری میں اتنادرد ہے کہ جو بھی سنتا ہے درد میں ڈوب جاتا ہے آخر راز کیا ہے تو راشد نے کہا بائو جی یہ راز عشق ہے اس کو نہ پھولوں تب مجھے پتہ چلا کہ یہ سارا کمال تو عشق کی نا کامی کی وجہ ہے مگرراز تو کھل گیا کہ راشد علی کسی سے محبت کرتے تھے جس میں ناکامی ہو گئی اور اس کی شادی بھی کہی اور ہوگئی اور پھر راشد علی کو بھی اپنے والدین کی بات مان کر اپنے والدین کی پسند کے مطابق شادی کرنی پڑی،اور محبت میں ناکامی کے بعد راشد علی نے بچپن کے شوق کو اپنا مقصد بنا لیا اور موسیقی کی دنیا میں انٹری دے دی جو کامیاب ہو گئی، اس دن راشد علی نے مجھے بتایا کہ جس سے میں عشق کرتا ہو ں وہ مجھے مل تو نہیں سکی مگر میرے گیت سن کر روتی ضرور ہیں ،میں نے کہا آپ کو کیسے پتہ کہ وہ آپ کے گیت سن کر روتی ہے تو راشد علی نے کہا میرابھی قاسد مجھے ہر خبر دیتا ہے اور جو عشق کرتے ہے وہ اپنے محبوب سے با خبر رہتے ہیں۔
بے خبر نہیں ،راشد علی کے پنجابی اورسرائیکی گیت زیادہ سپرہٹ ہوے راشد علی گے گیت پنجابی فلموں میں بھی ریکارڈ ہوے اور راشد علی نے نصیبولال ،نورہ لال ودیگر کے ساتھ کپل گیت بھی گائے جو بے حد مقبول ہوے راشد علی کا تعلق ننکانہ ،واربرٹن کے پسمندہ علاقے تھابل موڑ سے تھا راشد علی نے 1998ء میں دنیا موسیقی میں قدم رکھا اور با قاعدہ فو ک موسیقی کی تربیت حاصل کی راشد علی نے 2000ء میں ننکانہ صاحب میں بھولا میوز ک سینٹر پر پہلا البم ریکارڈ کروایا جو اسی علاقے تک محدود رہا راشد علی کے ایسے چند البم ریلیز ہوے جو ننکانہ واربرٹن کے علاقے میں مشہور ہوئے مگر اس علاقے تک ہی محدود رہے پھر 2004ء میں تھر پروڈیکشن ٹی پی گولڈ کراچی سے،،اچے اچے محل ،،ریکارڈ و ریلیز ہوا جس نے پوریا دنیا میں کامیابی کے جھڈے گاڈیے اور راشد علی کو مزدور سے معروف بنا دیا۔
جی ہاں آپ مزدور کے لفظ سے شائد حیران ہوے ہوگے ،یہ حقیقت ہے کہ راشد علی مشہور گلوکار بننے سے پہلے مزدور تھے وہ ایک اینٹوں والے بٹھے پر مزدوری بھی کرتے رہے ہیں اور پھر ٹریکٹر کی ڈرائیوری بھی کرتے رہے ہیں اور پھر دنیاموسیقی میںپراپر قدم رکھنے کے بعد راشد علی نے تمام سابقہ کاموں کو خیر باد کہ دیا اور گلوکاری اپنا ایسا نام پیدا کیاجو فوک گیتوں کو سننے والے کبھی نہیں بھلا سکے گے ،اور پھردنیا موسیقی میں پاکستان کی شان پنجاب کا شیر راشد علی18سال شہرت کی بلندیوں پر راج کرنے کے بعدگزشتہ روز14فروری 2018ء کو اپنے نیو البم کی ریکارڈ کروانے کیلئے شیخوپورہ جاتے ہوے راستے میں سگیاں بائی پاس کے قریب ہاٹ ٹیک ہونے سے اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے اور دنیا ے موسیقی میں ایک ایسا خلا پیدا کر گئے جو کبھی پر نہیں ہو گا ،ان کیلئے خصوصی دعا ہے کہ اللہ پاک راشد علی کے درجات بلند فرمائیں اور مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے امین۔