وہ چمن کا رزداں ہے، یہ چمن ہے رازداں کا یہ چمن کا راز کھولے، کوئی رازداں نہیں ہے میں سفیرِ کارواں ہوں، وہ ہے کارواں سفر کا مجھے لے چلے جو منزل، کوئی کارواں نہیں ہے وہ گماں میں مبتلا ہے، گماں مجھ میں مبتلا ہے جو گماں کا دائرہ ہو، وہ میرا گماں نہیں ہے میں ہوں میہمان اس کا، وہ ہے میہمان میرا چلو راز یہ کھلا ہے، کوئی میہماں نہیں ہے میرا آسمان دل ہے، میرا دل ہے آسماں کا دلِ آسماں کا نغمہ، کوئی آسماں نہیں ہے وہ ہے کہکشانِ نوری ، میں ہوں نور کہکشاں کا میرے کہکشاں سے آگے، کوئی کہکشاں نہیں ہے دلِ بے کراں سے آگے، کوئی بے کراں تو نکلے کہ نگاہِ بے کراں میں، کوئی بے کراں نہیں ہے یہ ہے ماں موجدوں کی، یہ ضرورتوں کی ماں ہے کہ ضرورتوں سے بڑھ کر، یہاں کوئی ماں نہیں ہے تھا میں پاسبان اُس کا، میرا پاسبان تھا وہ میں نے سوچ کر جو دیکھا، کوئی پاسباں نہیں ہے مِرے دل میں تھا نہاں وہ، میں نہاں تھا اُس کے دل میں میرا دل تو خود نہاں تھا، تو کوئی نہاں نہیں ہے میں زبان تھا اُسی کی، وہ میری زبان تھا ہی ہوئے ایک دوسرے کے، تو کوئی زباں نہیں ہے
Ahmed Nisar
شاعر : احمد نثار Email : ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in