تحریر: شاہ بانو میر (رپورٹ گزشتہ روز پیرس سے ملحقہ شہر ویلئیر لا بیل میں شاہ بانو میر ادب اکیڈمی (رجسٹرڈ فرانس ) میں شاہ بانو میر کی معیت میں خواتین اور بچوں کیلیۓ رنگا رنگ خوبصورت کامیاب پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں خواتین اور بچوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
پروگرام میں اکیڈمی کی خواتین کی جانب سے بریانی سپیشل دیگر خواتین کی جانب سے سویٹ ڈش کے ساتھ انواع و اقسام کے کھانوں کے اسٹال لگائے گئے۔ پروگرام مقررہ وقت سے دو گھنٹے تاخیر شروع ہوا وجہ تھی خواتین اور بچوں کی اسٹالز میں دلچسپی۔ ذائقہ ریسٹورنٹ کے عمران بھائی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ان کی فیملی نے پروگرام میں شمولیت اختیار کر کے اس کی رونق کو بڑھا دیا۔ خواتین میں تقسیم انعامات انہی سے کروائی گئی۔ بریانی کے لئے اکیڈمی کی خواتین کا مشترکہ اسٹال تھا جہاں وقار النساء نگہت سہیل شاز ملک شازیہ شاہ منال شاہ نے سلاد اور بریانی بنائی۔ گرما گرم تازہ چائے نے الگ ہی لطف دیا۔ وقار النساء صاحبہ کو بریانی سپیشل کا ونر قرار دیا گیا۔ منال شاہ کی اسٹک کینیڈیز بچوں میں بیحد مقبول ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سب بک گئیں۔ بشریٰ نزیر اور فریحہ کے دیدہ زیب کپٰڑوں اور جیولری نے سب کو اپنی جانب متوجہ رکھا۔ رخشندہ سس نے انواع و اقسام کے کھانے سجائے گول گپے حلوہ پوری دہی بڑے دیکھتے ہی دیکھتے تیزی سے بِک گئے رخشندہ سس کو گول گپے پر پرائز دیا گیا۔
نویدہ سس نے بیکنگ کی منفرد اشیاء سے اسٹال کو با رونق بنا رکھا تھا چاکلیٹ کیک پر انہیں پرائز ملا رُباب کی چنا چاٹ اور رقیہ کے نان پکوڑے الگ بہار دکھا رہے تھے ۔ بشریٰ آصف کے لذیذ شامی کباب سب کی توجہ کا باعث تھے ۔ عابدہ نے مہندی کا اسٹال لگا کر بچیوں کے ہاتھوں پر خوب ہُنر آزمایا ۔ اکیڈمی کی خواتین کی جانب سے کھانے کے علاوہ رنگا رنگ پروگرام بھی پیش کیا گیا جسے خواتین نے خوب سراہا۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز مبشرہ نعیم نے ابتداء میں خواتین کی کثیر تعداد کی پروگرام میں شمولیت اور جوش و خروش سے حصہ لینے پر انکا شکریہ ادا کیا اور اختصار سے اکیڈمی کی غرض و غایت سے بیان کی اور پھر اکیڈمی کی سینئیر موسٹ رکن محترمہ وقار النساء صاحبہ کو مائک سنبھال کر پروگرام کی دعوت دی۔ وقار جی کے بارے میں اکیڈمی کیلئے ان کی دن رات کی گئی کوششوں کا ذکر کیا کہ ان کی مثال کسی بھی عمارت کی بنیاد ۫ی اینٹ جیسی ہے اس اینٹ نے اکیڈمی کی عمارت اعلیٰ تعمیر کر دی۔
Food Festival
وقارالنساء صاحبہ نے باقاعدہ پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے تلاوت قرآن پاک کیلیۓ مریم توقیر کو مدعو کیا۔ خوش الحان مریم توقیر نے پارہ 15 میں بنی اسرائیل کی آیت مبارکہ 23 سے 27 تک کی تلاوت کی جس کا ترجمہ محترمہ شاہ بانو میر نے کیا مختصر سی تفسیر کے ساتھ ان آیات میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اور فیصلہ کر چکا ہے پروردگار تیرا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو۔ اگر تیرے سامنے اُن میں سے کوئی ایک یا وہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں پس انہیں”” اُف”” نہ کہو نہ انہیں جھڑکو اور ان کے ساتھ تعظیم سے بات کرو۔ اور عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو ۔ اور کہ اے میرے پروردگار رحم فرما ان دونوں پر جیسا کہ پرورش کیا ان دونوں نے مجھے ۔ پروردگار تمہارا خوب واقف ہے جو کچھ تمہارے نفسوں میں ہے۔ اگر تم ہو نیک تو پس بے شک وہ ہے رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ۔ اور ادا کر قرابت والے کو اس کا حق ۔ اور مسکین کو اور مسافر کو اور بے جاہ خرچ نہ کرو بے شک بے جاہ خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ اور ہے شیطان اپنے پروردگار کا ناشکرا۔
فائزہ مُبین نے نعت رسول مقبول ﷺ انتہائی عقیدت و احترام سے پیش کی ۔ فائزہ مُبین نوجوان نسل کا باشعور نام نوجوان نسل میں اسلام کی آگہی کو پھیلانے کیلئے پُرعزم نوجوان نسل کی پہچان ۔ وقار انساء صاحبہ نے اکیڈمی کی ٹیم کا مکمل تعارف خوبصورتی سے پیش کیا ۔ اور پاکستانی پروگراموں میں نعت خوانی کی منفرد پہچان “” ایمن “” نے موجودہ بھارتی جنگی جنون اور کشمیریوں کی حق خود ارادیت کیلئے قربانی پیش کرنے والے شھداء کی یاد میں پُرسوز آواز میں اے راہ حق کے شہیدو سنا کر ہر آنکھ کو پُرنم کر دیا۔
Food Festival
اکیڈمی کی خوبصورت رکن طنز و مزاح میں اپنا ثانی نہ رکھنے والی نگہت سہیل صاحبہ نے ہال میں موجود ننھے مُنے بچوں سے مختلف نوعیت کی معصومانہ باتیں پوچھتے ہوئے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔ موبائل فون عہد حاضر کا رہنما بھی اور رہزن بھی کے عنوان سے خوبصورت معلوماتی شئیرنگ بھی کی۔ نگہت سہیل صاحبہ نے اپنے پاکستان کے قیام میں جو تکلیف دہ مناظر دیکھے انہیں انہیں اشعار کے قالب میں ایسا ڈھالا کہ ہر آنکھ آبدیدہ ہو گئی ۔ شازیہ شاہ باوقار سلجھا ہوا تعلیم کا تاثر گفتگو سے ہی نہیں ان کی بول چال سے بھی نمایاں ہے شازیہ شاہ نے ہال میں موجود خواتین سے ہلکی پھلکی نوعیت کے سوالات کئے جن میں خواتین کے پروگراموں کی ضرورت ہے یا نہیں؟
اس سوال کا جواب خواتین کی جانب سے پر زور اصرار پے آیا کہ ایسے با مقصد اور میعاری معلوماتی پروگرام ضرور ہونے چاہیے جہاں خواتین اور بچوں کو شعور کے ساتھ وطن سے سچی محبت کا سبق بھی ملتا ہے۔ شاز ملک صاحبہ اکیڈمی کا وہ منفرد نام ہے جس کے ساتھ ان کا کام موجود ہے اس کام میں ان کے ناول اور شاعری کے مجموعے شامل ہیں جنہیں خواتین نے بہت پسند کیا۔
Food Festival
بشریٰ نزیر معروف بیوٹیشن ایشیا بیوٹی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے بشریٰ نے اللہ پاک کی نعمتوں کے شعور کو اصل چہرے کا دل کا نور قرار دیا ۔ اور تعمیری اور بیش قیمت بیوٹی ٹپش دیں جن سے خواتین اپنے چہرے کی تازگی کو برقرار رکھ سکتی ہیں ۔ ہاتھ گردن پر موجود نشانات کو مدہم ہی نہیں مٹا بھی سکتی ہیں ۔ خواتین نے انہماک سے بیوٹی ٹپس کو سنا ۔ شبانہ عامر اپنے ٹاؤن کا معروف نام جو بچوں کی تعلیم و تربیت اور پاکستان سے محبت کے حوالے سے خاص ہے ۔ شبانہ نے اپنے خطاب میں پاکستان کو اس کی محبت کو مثالوں سے سمجھایا ۔ شبانہ عامر جیسی با ہمت اولوالعزم خواتین ہی پاکستان کی پہچان ہیں۔
وقار جی نے اپنی تازہ تازہ پنجابی نظم “” اساں میلے جانا”” ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کر دیا ۔ نظم اکیڈمی کے فوڈ فیسٹیول پر اس عمدگی سے لکھی گئی کہ اس میں خواتین کے کام کی تعریف کی وجہ سے وہ خاتون میلہ دیکھنا چاہتی ہیں اور ساتھ ساتھ ہ پیسوں کا تقاضہ کرتی ہیں اور طرہ یہ کہ واپسی پر کھانا بھی پیک کر کے لانا چاہتی ہں تا کہ روز روز کا وبال جان چولہا ان سے دور ہو۔ تمام شرکاء خوب محظوظ ہوئے اس انوکھے مطالبے پر۔ شاہ بانو میر دیاں سکھیاں بڑیاں پکیاں تے ڈھاڈیاں تالیاں بجا کر سب نے اس شعر کی سچائی کی تائید کی۔
خوب داد سمیٹی وقار النساء صاحبہ نے۔ اگلے مرحلے میں شبانہ عامر کی جانب سے پروگرام کے حوالے سے خصوصی ٹیبلوز پیش کئے گئے شناز بیگم کا خوبصورت تاریخی گیت موج بڑھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے گھر کی خاطر سو دکھ جھیلیں گھر تو آخر اپنا ہے راحت فتح علی خان کا میٹھا گیت شکریہ پاکستان مسکرا پاکستان
Food Festival
پیش کیا بچوں کی اتنی پیاری پپیشکش کو خواتین نے بھرپور انداز میں سراہا ۔ پاکستان سے محبت کا نور ان کے چہروں کی تمتماہٹ سسے دکھائی دے رہا تھا۔
اکیڈمی کی خواتین اور ہال میں موجود خواتین نے پاکستان کی محبت سے سرشار ان بچوں کی کھڑے ہو کر خوب تالیاں بجا بجا کر حوصلہ افزائی کی۔ ماحول جیسے پُرنور سا ہوگیا۔ پاکستان کیسا نام ہے کیسا اثر ہے اس میں کیسا جزبہ ابھرتا ہے اس نام سے ؟ ای جوش کی کیفیت پیدا ہو گئی۔
پروگرام کے آخر میں فرش پر سفید چاندنی بچھا کر روایتی انداز میں شمع کے ساتھ شاز ملک کا مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ مشاعرے کی میزبانی محترمہ منورسلطانہ نے ادا کی ۔ گفتگو میں موجوں کی فراوانی ہو۔
سوچ میں علم کی لہروں کی پرسکون روانی ہو ۔ انداز بیاں کہ سننے والا گرد و پیش سے بے نیاز ہو جائے ۔
Food Festival
انداز بیاں ایسا کہ ہر کوئی محو ہو جائے ایسی ہی سحر انگیز ی سی طاری رہی منور سلطانہ صاحبہ کے طرز تخاطب سے۔
انہوں نے شاعری کے ساتھ کتاب میں سے خوبصورت اقتباسات پیش کئے اور خوب داد وصول کی ۫ اکیڈمی کی تمام خواتین نے ان کی کتاب میں سے چیدہ چیدہ اشعار اور نظمیں پیش کیں جنہیں تالیوں کی گونج میں خوب پسند کیا گیا۔ ٌ
مشاعرے میں تمام خواتین نے فراخدلی سے شاز ملک صاحبہ کی شاعری پر ہی نہیں ان کی شخصیت پر اور ان کی سوچ پر جامع رائے پیش کی۔ شاز ملک نے اپنی وہ نظم جسے پاکستان کے شعراء نے بہت سراہا و پیش کی اور داد سمیٹی ۔ تفصیل سے اپنی آئیندہ آنے والی کتابوں کے متعلق معلومات فراہم کیں۔
پروگرام کے آخر میں شاہ بانو میر نے صفیہ سلطانہ (ذائقہ ریسٹورنٹ ) ان سے درخواست کی وہ آئیں اور تمام بچوں اور خواتین میں انعامات تقسیم کریں ۔ ذائقہ ریسٹورنٹ کی انتظامیہ کے انتہائی مشکور و ممنون ہیں جنہوں نے ہر قدم پر خواتین کی مدد کی اور اس رنگا رنگ پروگرام کو کامیاب کیا۔
دوران پروگرام “” حور “” چاول والوں کی جانب سے معروف صحافی بابر مغُل صاحب کی اہلیہ روحی بابر تشریف لائیں اور ہال میں موجود تمام خواتین اور بچوں کو حور چاول کی جانب سے چاولوں کے پیکٹ تحفة دیے۔
آخر میں مہمان خصوصی صفیہ سلطانہ صاحبہ نے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں صفیہ سلطانہ آبدیدہ ہو گئیں اور انہوں نے شاہ بانو میر کا ہاتھ پکڑ کر گلوگیر آواز میں کہا کہ گزشتہ دس سال سے یہاں رہتی ہیں ۔ لیکن پاکستان کیلیۓ ایسا جزبہ ایسی خوبصورتی دیکھنے کو وہ ترس گئیں تھیں۔
Food Festival
انہوں نے تمام خواتین کا شکریہ ادا کیا اور اکیڈمی کی خواتین کو خوب سراہا اور بچوں کو شاباش دی۔
فوڈ فیسٹیول شاندار آغاز سے کامیاب انجام تک پہنچا اور آخر میں شاہ بانو میر نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا اپنی ٹیم کی دن رات کوششوں کا تزکرہ کیا اور مختصر سی دعا کروائی۔
دنیا کی کامیابی قرآن کے بغیر جھاگ ہے جس میں کامیابی کا تاثر زیادہ ہے اثر کم۔
آخر میں قومی ترانہ تمام بچوں نے خواتین نے انتہائی عقیدت و احترام سے مل کر پڑھا اور تالیوں کی بے پناہ گونج میں یہ شاندار پروگرام تاریخ رقم کرتا ہوا فرانس کی فضاؤں میں محفوظ ہو گیا۔
طویل دورانیے پر مبنی یہ پروگرام ایک ہی ردھم ایک ہی انداز میں معلومات کو پھیلاتا۔
محبتوں کا سفیر بنا رہا ۔ ہر چہرہ خوش تو پروگرام کیلیۓ بچوں سے سنا ہوا گیت ہی مسلسل گونج رہا ہے کہ مُسکرا پاکستان مُسکرا