روٹی

wheat

wheat

روٹی، کا نام زبان پر آتے ہی پیٹ میں ہچل سی ہونے لگتی ہے۔انسان کی بنیادی ضروریات میں روٹی کو اہمیت حاصل ہے۔ جدید دور میں روٹی کی کئی نسلیں پیدا ہو چکی ہیں۔ مثلا مکئی کی روٹی، چاول کی روٹی، باجرے کی روٹی، گندم کی روٹی وغیرہ وغیرہ۔اس کی افادیت کون نہیں جانتا۔؟ یہ بیچاری ”روٹی”محلوں میں مرغ، ہرن کی ڈشیوں کے ساتھ پڑی بے آبرو ہوتی رہتی ہے،۔ اپنے آپ کو کوستی رہتی ہے۔

یہی روٹی غریب کی دسترس سے باہر ہے۔بھولے سے بھی ان کے دسترخوان کی زینت نہیں بنتی۔اب غریب کے پاس دسترخوان ہو تو یہ وہاں جائے۔بیچارے غریب تو ہاتھوں میں روٹی تھمے ،کھیتوںکی طرف چلتے ہیں ،جاگیرداروں کی نوکری،غلامی کرکے اپنے بچوں کا پیٹ بھی تو پالناہوتا ہے۔یہ بیچاری روٹی صدیوں سے محو سفر ہے۔غریب روٹی کے لئے ترس رہا ہے اور امیر روٹی کو تکتا ہی نہیں۔

امیر کے پاس کھانے کو بہت کچھ جو ہوتا ہے۔ کیسا زمانہ ہے کسی کے پاس کھانے کے لئے ایک وقت کی روٹی نہیں اور کسی کے پاس روٹی کھانے کے لئے وقت ہی نہیں۔عجیب تماشہ دُنیا ہے ۔انسان روٹی کی جنگ لڑ رہا ہے۔یہ کسی کو خبر نہیں کس کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔روٹی نے کتنی جانیں نگل لی۔ روٹی نے رشتوں کی پہچان بھلا دی۔رشتوں کی جکڑی زنجیریںٹوٹ پھوٹ گئیں۔اس روٹی نے دنیا میں فساد برپا کر رکھا ہے۔آپ زمانے بھر کے پھل فروٹ کھا لو پیٹ نہیں بھرے گاجب تک روٹی نہیں کھا لیتے۔یوں سمجھو ہوا،پانی کے علاوہ روٹی بھی زندہ رہنے کے لئے ضرور عنصر ہے۔روٹی کی کہانی کہاں سے شروع ہوئی ،یہ لمبی کہانی ہے۔کسی نے کہا جب انسان کو بھوک لگی تب سے روٹی کی کہانی شروع ہوئی۔

کسی نے کہا جب حضرت آدم علیہ السلام نے گندم کا دانہ کھایا اور جنت سے بے دخل ہوا۔کوئی کہتا ہے جب بھوک ایجاد ہوئی، تب روٹی دریافت ہوئی۔کوئی مزاحیہ انداز میں کہتا ہے جب کھانے کے لئے دانت پیدا ہوئے تب روٹی کا آغاز ہو گیا۔کسی نے کہا جس چیز کا اختتام ہی نہ ہو اس کا آغاز کیسا۔روٹی کھانا انسان نے کب شروع کی کسی کو علم ہو یانہ ہوبحرحال روٹی نے ناکوں چنے ضرور چبوا دئے ہیں۔روٹی کی غرض نے بچے فروخت کروا دئیے۔روٹی نے جسم کے اعضاء فروخت کرنے پر مجبور کر دیا۔کوئی جگر بیچ رہا ہے تو کوئی آنکھیں۔معاشرے میں تمام بُرائیاں روٹی نے ہی جنم دی ہیں۔چور ،ڈاکو،لیٹرے،سبھی اسی نے بنائے۔عقل و شعور رکھنے والا انسان روٹی کے خاطر پاگل پاگل سا ہے۔بھائی ،بھائی کو قتل کر رہا ہے۔بیٹا،باپ کا گریبان پکڑے کھڑا ہے،یہ سب روٹی کے کارنامے ہی تو ہیں۔

Roti

Roti

آج انسان ترقی کرتا کرتا کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا۔ روٹی کو نہیں بھولا۔ انسان مریخ پر کمندیں ڈال چکا ہے مگر روٹی کا مسلہ حل نہیں کر پایا۔روٹی سے کیسے نجات پائی جائے،بڑے بڑے سائنسدان ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں۔ زمین پر رینگنے والا انسان جہازوں میں سفر کرنے لگ،ایٹم بم بنا لئے، ڈوران بن گئے، کس لئے صرف اور صرف روٹی کے لئے۔ اب کوئی روٹی کھاتا ہے تو کوئی روٹی چھینتا ہے۔کوئی روٹی کے لئے بلک رہا ہے، کوئی روٹی کے لئے ضمیر فروش کروا رہا ہے۔ کوئی روٹی کے جیتا ہے تو کوئی جینے کے لئے روٹی کھاتا ہے۔ عجیب تماشہ ہے، ہر طرف روٹی دو،روٹی دوکا شور برپا ہے۔ ایوانوں میں بیٹھے لوگ کانوں میں روئی ٹھونسے ہوئے ہیں۔ان کو یہ شور کب سنائی دیتا ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام نے محض ایک دانہ گندم کھایا ،وہ بھی شیطان مردو کی سازش سے تو تین سو سال سے زائد،اس غلطی کی معافی نہیں ملی۔تین صدیوں کی جنت سے بے دخلی کی وجہ محض ایک دانہ گندم تھا۔ اب ہم سوچیں کہ لاکھوں ،کروڑوں گندم کے دانے کھاتے ہیں۔ہمارا کیا ہوگا۔؟ہمارے ملک میں بیٹھے اژدہے کتنے غریب ہاریوں کا حق کھا رہے ہیں۔

ان میں حاکم،آفسر، تاجر ، ذرا بھر نہیں سوچتے کہ اس غریب بے کس، مجبور کسان کا کیا قصور ہے جو ماں دھرتی(زمین)سے اپنا خون پسینہ دے کر لاکھوں دانے گندم اگاو ا کر تیار کرتا ہے۔اس کے منہ سے تو روٹی کا نولہ تک چھین لیا جاتا ہے۔ایک روٹی کی خاظر کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ،سیاسی کرسی پر برجمان لوگ کیا جانیں۔جن کو روٹی تو دور،یہاں تک علم نہیں ہوتا کہ گندم پیدا کیسے ہوتی ہے۔

چند دن پہلے اس حقیر انسان نے کرب ناک حادثہ دیکھا۔غریب مزدور،پرانی سائیکل پر سواربچوں کے لئے”روٹی”کمانے جا رہا تھا۔ناجانے گھر سے کتنا سفر کر چکا تھا کہ ایک تیز رفتار(سرکاری آفسر)کی گاڑی نے کچل دیا۔بیچارہ موقع پر دم توڑ گیا۔گاڑی تو رکی نہیں ،مگر اس غریب کی شناخت کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا گیا توجو برآمد ہوا۔بیان کرتے ہوئے آنکھوں کے ساتھ دل بھی غم زدہ ہے۔

سوراخ نما رومال میں سوکھی روٹی کے ٹکڑے بندھے ہوئے تھے۔ایک روٹی نے انسان کو کہاں سے کہاں لے آکر کھڑا کیا ہے۔ کبھی فرصت ملے تو سوچنا ضرور۔کاش !ہماری حکومت، صاحب اقتدار لوگ سیاسی جوڑ اتوڑ سے فرصت پا کر غریب کو ایک وقت کی روٹی مہیا کرتے۔ پاکستان کب کا معرض وجود میں آگیا، سیاستدانوں سے بنیادی ضروریات زندگی، روٹی، کپڑا، مکان ، کا حل نہ نکل سکا۔ کاش! غریب کو روٹی مل سکتی مگر،خواب تو خواب ہوتے ہیں یہ کب پورے ہوتے ہیں۔ روٹی کی کہانی، انسان کے روح زمین پر آنے سے شروع ہوئی اور شایدر انسان کے زمین سے اٹھ جانے پر ختم ہوگی۔

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر : مجید احمد جائی
majeed.ahmed2011@gmailcom