کراچی (جیوڈیسک) پاکستان میں ای کامرس اور انٹرنیٹ کی سہولت عام ہونے سے تیار غذاؤں کی صنعت ترقی کررہی ہے۔ ایک دہائی کے عرصے کے دوران پاکستان میں تیار کھانوں پر اوسط ماہانہ خرچ 300 روپے سے بڑھ کر ایک ہزار روپے تک پہنچ چکا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تیزی سے فروغ پاتی غذائی پروسیسنگ انڈسٹری معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے اور روزگار کے وسیع مواقع پیدا کرنے کے ساتھ برآمدات بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی سے متعلق معاشی جائزہ رپورٹ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے غذائی پروسیسنگ کی صنعت کی مستحکم بنیادوں پر ترقی کے لیے اس صنعت کو یکساں کاروباری مواقع فراہم کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ دستاویزیت اور ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
مرکزی بینک کے مطابق فوڈ پروسیسنگ کی صنعت میں حقوق دانشوراں کے تحفظ، عالمی سطح پر تسلیم شدہ کوالٹی کے معیارات کے نفاذ اور کو آپریٹیو فارمنگ کو فروغ دے کر فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری کے ذریعے بھرپور معاشی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سہ ماہی رپورٹ کے خصوصی سیکشن میں فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری کی افادیت اور چیلنجز کا احاطہ کرتے ہوئے اس شعبے کی مستحکم بنیادوں پر ترقی کے لیے تجاویز دی ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان میں ابھرتی ہوئی مڈل کلاس، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، برسرروزگار خواتین کی تعداد میں اضافے، پھیلتے ہوئے شہروں اور غذائیت بخش اور حفظان صحت کے مطابق تیار کردہ غذا کی اہمیت کے بارے میں آگہی نے تیار غذاؤں کی صنعت کے لیے کاروباری نقشہ یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافے، آن لائن خریداری پر صارفین کے بڑھتے ہوئے اعتماد اور معتبر ڈیلیوری نیٹ ورک کی دستیابی نے صارفین کو ویب سائٹ کے ذریعے کھانے آرڈر کرنے کے طریقوں کے استعمال کی ترغیب دی ہے۔ اس کے ساتھ ریٹیل اسٹورز کے پھیلتے ہوئے نیٹ ورک کی وجہ سے بھی اس رجحان کو تقویت مل رہی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے گھریلو آمدنی و اخراجات سروے کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2005 تک تیار غذاؤں پر اوسط ماہانہ خرچ 303روپے سے بڑھ کر 2014تک 1009روپے تک پہنچ چکا ہے جبکہ اسی مدت کے دوران دیگر تمام اہم غذائی اشیا پر اوسط خرچ کا تناسب 39.7فیصد سے کم ہوکر 35.3فیصد کی سطح پر آ چکا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق غذائی پروسیسنگ کی صنعت زرعی شعبے میں معاشی سرگرمیاں تیز کرتے ہوئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس شعبے کی ترقی سے پروسیسنگ آلات ومشینری، ریفریجریٹڈ گاڑیوں، کنٹینرز اور غذائی معیار کی پیکجنگ کی طلب بڑھنے کے ساتھ نقل و حم اور رسدی زنجیر بشمول ٹرانسپورٹ، ویئرہاؤسنگ اور ڈسٹری بیوشن کے شعبوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
غذائی پروسیسنگ ملک کی برآمدات میں بھی اضافے کا سبب بنے گی اس وقت ملک کی 4سے 4.5ارب ڈالر کی غذائی برآمدات میں چاول کی برآمدات کا حصہ 50فیصد کے لگ بھگ ہے۔ پروسیسنگ کی صنعت سے قریبی روابط کاشتکاروں و اچھی اور مستحکم آمدنی کمانے کا موقع مہیا کرتے ہیں اور زرعی شعبے میں جدید رجحانات اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ ملتا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں غیر دستاویزی کاروبار، معیار بندی کے فقدان اور چھوٹے رقبے پر کاشت کو فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری کے لیے سرفہرست چیلنج قرار دیا ہے۔
مرکزی بینک کے مطابق پیٹنٹ اور ٹریڈ مارک کے ذریعے ناکافی تحفظ کی وجہ سے چھوٹے اشیا سازوں کو برانڈڈ مصنوعات کی لیبل اور پیکجنگ کی باآسانی نقل تیار کرنے کا موقع ملتا ہے جس سے تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری مشکل ہو جاتی ہے۔
غیردستاویزی فرمز بڑی کمپنیوں کے لیے بڑا چیلنج ہیں غیردستاویزی فرمز نہ صرف ٹیکس کی ادائیگی میں پیچھے ہوتی ہیں بلکہ کم کوالٹی کی وجہ سے ان فرموں کی تیار کردہ غذائی اشیا سستی بھی ہوتی ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری کی ترقی کے لیے پوری سپلائی چین میں عالمی سطح پر تسلیم شدہ غذائی تحفظ اور کوالٹی کے معیارات کے موثر نفاذ کی ضرورت پر زور دیا ہے جس کے ذریعے پاکستانی مصنوعات ترقی یافتہ ملکوں میں بھی برآمد کی جاسکتی ہیں۔
اسی طرح کارپوریٹ فارمنگ کی حوصلہ افزائی کے لیے کاشت کاروں کے متحرک گروک تشکیل دے کر اکانومی آف اسکیل حاصل کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔