استنبول (جیوڈیسک) ترکی میں برسوں سے لاپتہ افراد کے اہل خانہ اور ان کی ماؤں کے ایک ہفتہ وار احتجاجی مظاہرے کو ختم کرانے کے لیے پولیس کی طرف سے ہفتہ پچیس اگست کو طاقت کا استعمال کیا گیا۔ بیس سے زائد افراد کو حراست ميں بھی لے لیا گیا۔
ترکی کے شہر استنبول ميں مقامی پوليس نے احتجاج کرنے والی ان عورتوں کے خلاف تيز دھار پانی اور آنسو گيس کا استعمال کیا۔ سن 1980 اور سن 1990 کی دہائيوں سے لاپتہ بہت سے ترک شہريوں کی ان ماؤں اور دیگر احتجاجی رشتہ داروں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے بھاری طاقت استعمال کی۔ اس دوران کم از کم تئیس افراد کو حراست ميں بھی لے ليا گيا۔ موقع پر موجود خبر رساں ادارے اے ايف پی کے ایک نمائندے کے مطابق پوليس اہلکاروں نے مظاہرين کو بڑی بے دردی سے گھسیٹا اور انہیں زبردستی گاڑيوں ميں سوار کرا کر اپنے ساتھ لے گئے۔
ترکی ميں Saturday Mothers کے نام سے جانی جانے والی يہ خواتین ستائيس مئی سن 1995 سے استنبول کے مرکز ميں ہر ہفتے احتجاج کے لیے جمع ہوتی ہيں۔ وہ اپنے ان بچوں اور ديگر رشتہ داروں کی ياد ميں اکٹھی ہوتی ہيں، جو سن 1980 اور سن 1990 کی دہائيوں ميں لاپتہ ہو گئے تھے۔ ان مظاہرین کا الزام ہے کہ ایسے ترک شہریوں کی گمشدگیوں اور اچانک لاپتہ ہو جانے میں ترک ریاست ملوث تھی۔ ان واقعات کو جدید ترکی کی تاريخ کا ايک سياہ باب بھی قرار ديا جاتا ہے۔
ہفتہ پچيس اگست کو گرفتار کی جانے والی خواتین ميں بياسی سالہ آمنہ اوکاک بھی شامل ہيں۔ وہ اس ہفتہ وار احتجاج کی قیادت کرتی رہی ہیں۔ آج ہفتے کے دن کا مظاہرہ اس سلسلے کا 700 واں ہفتہ وار احتجاج تھا۔
استنبول پوليس کی اس کارروائی سے قبل علاقائی حکام نے يہ اعلان بھی کر رکھا تھا کہ اس ہفتے ريلی نکالنے پر پابندی عائد ہے۔ حکام کے مطابق ريلی پر پابندی اس ليے لگائی گئی تھی کيونکہ اس احتجاج کے ليے عام لوگوں کو اکسانے والے چند افراد کے سوشل ميڈيا اکاؤنٹس کے جائزے سے پتہ چلا تھا کہ ان کے کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے ساتھ روابط ہيں۔
ترکی ميں عشروں پہلے يہ گمشدگياں ايسے وقت پر ہوئی تھيں، جب پی کے کے کی مسلح بغاوت اپنے عروج پر تھی۔ بعد ازاں سن 1984 ميں شروع ہونے والے مسلح تنازعے کے نتيجے ميں بھی ہزاروں انسانی جانيں ضائع ہوئی تھیں۔ ترکی میں کردوں کی علیحدگی پسندی کی تحریک ابھی تک پوری طرح ختم نہیں ہوئی۔
ناقدين کا کہنا ہے کہ ترک حکومت نے آج تک ان جبری گمشدگيوں کی ذمہ دارانہ انداز ميں چھان بین نہيں کرائی اور نہ ہی اب تک يہ پتہ چل سکا ہے کہ تب اچانک لاپتہ ہو جانے والے بہت سے ترک شہری آج زندہ بھی ہیں یا نہیں۔