اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں بسنے والے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد یا مذہبی اقلیتوں سے متعلق قومی دن ہر سال 11 اگست کو منایا جاتا ہے اور رواں سال اس دن ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکنوں نے کہا ہے کہ اُن کی برادری سے تعلق رکھنے والوں خاص طور پر لڑکیوں کی مبینہ طور پر ’جبراً‘ مذہب کی تبدیلی اُن کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔
قومی اسمبلی میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے رکن رمیش کمار نے کہا کہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی یقینناً ہندوؤں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔
’’قومی دھارے سے ہم کافی دور ہیں۔۔۔۔۔۔ تفریق تو ہے لیکن ہم اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اسے دھرتی ماں سمجھتے ہیں اور دھرتی چھوڑ کر نہیں جائیں گے اپنے مسئلے یہاں ہی بیٹھ کر حل کریں گے۔‘‘
ملک میں مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے اس صورت حال پر ایسے وقت بات کی جا رہی ہے جب ایک روز قبل ہی بدھ کو امریکی محکمۂ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں دنیا بھر میں مذہبی آزادی اور حقوق سے متعلق صورت حال میں ابتری ظاہر کی گئی تھی اور خاص طور پر مسلمان ممالک میں توہین مذہب سے متعلق قوانین پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان بھی ایسے ممالک میں شامل ہے جہاں توہین مذہب سے متعلق سخت قوانین نافذ ہیں اور انھی قوانین کے باعث پاکستان میں اس وقت 40 افراد توہینِ مذہب کے الزام میں سزائے موت کے منتظر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق توہین مذہب سے متعلق مقدمات میں سزا پانے والے افراد میں اکثریت کا تعلق اقلیتی برادریوں سے ہے۔
تاہم حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہتے رہے ہیں کہ ملک میں توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئرمین کامران عارف کہتے ہیں کہ پاکستان میں آباد مذہبی اقلیتوں کو جہاں دیگر مسائل کا سامنا ہے وہیں وہ دہشت گردوں کے بھی نشانے پر ہیں۔
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین جاوید عباسی نے کہا کہ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو انفرادی طور پر تو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن اُن کے بقول بحیثیت مجموعی ایسا نہیں ہے۔
’’ہمارا آئین اس بارے میں بڑا واضح ہے اس معاملے میں۔۔۔ ہم نے ہمیشہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والوں کی ہمیشہ عزت کی ہے۔ اُنھیں بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو ہمیں حاصل ہیں۔۔۔۔ انفرادی شکایت ضرور ہو سکتی ہے لیکن بحیثیت قوم میں نہیں سمجھتا اُن کے لیے یہاں کوئی مسئلہ ہے۔‘‘
جاوید عباسی کا کہنا تھا کہ اقلیتی برادری سے متعلق جب بھی شکایت سامنے آئی تو اُن کی کمیٹی نے ترجیحی بنیادوں پر اُن کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ نچلی سطح سے لے کر پارلیمان تک پاکستان میں آباد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نمائندگی حاصل ہے اور وہ اپنے حقوق کے لیے بلا خوف و خطر آواز بلند کر سکتے ہیں۔
اُدھر وزیراعظم نواز شریف نے اقلیتوں کے قومی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان میں آباد تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بلا امتیاز مساوی حقوق فراہم کیے جائیں گے۔