یوکرائین میں انقلاب

Ukraine

Ukraine

صدر ”ینکو ویچ”ہم بہت ناراض ہیں۔ سفید کاغذ کے بڑے ٹکڑے پر لکھے ہوئے یہ الفاظ ایک چھوٹے بچے نے اُٹھا رکھے تھے اور وہ بچہ یوکرائین کے دارالحکومت”کیو” میں لاکھوں مظاہرین کے درمیان موجود تھا۔ مظاہرین کے چہروں پر جو خفگی مجھے دیکھنے کو ملی وہ پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ اُن کے غصے سے محسوس ہورہا تھا کہ یہ جلدی ٹھنڈا ہونے والا نہیں۔ میں اُس وقت اُس ہجوم کا حصہ تھا اوریہ بات میرے ذہن میں تھی کہ یوکرائینی قوم صدیوں سے جنگجو اور لڑاکے مشہور ہیں اور اپنی زِد پر آجائیں تو کسی کی نہیں سُنتے یہ بھی معلوم تھا۔ عوام چاہتی تھی کہ لڑائی اور مار دھاڑ شروع کرے لیکن نجانے کیوں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اُنہیں کسی نہ نظر آنے والے چیز نے روک رکھا تھا۔

اُس نہ نظر آنے والے چیز کا علم مجھے چند دن بعد ہوا۔وہ غائبی چیز وطن سے محبت تھی۔وہ جانتے تھے مار دھاڑ اور توڑ پھوڑ کا نقصان ایوانوں میں بیٹھے اُن حکمرانوں کو نہیں ہوگا جن کی وجہ سے وہ اہتجاج کیلئے سڑکوں پر آگئے تھے۔اُس وقت مجھے اپنے وطن پاکستان کی یاد آئی۔

European Union

European Union

چند ہفتے پہلے نومبر 2013 میں یوکرائین کو یورپ میں شامل نہ ہونے دینے کے بعد سے ان احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ یوکرائین کے صدر ”ینکو ویچ” کی غلطی تھی کہ اُنہوں نے یورپی یونین سے یہ معاہدہ کرنا ہی نہیں چاہا اور اس طرح یوکرائین یورپی یونین میں شامل نہ ہو سکا۔احتجاجوں کے آغاز کے بعد چند دن تک عوام اس بات پر شور مچاتی رہی کہ ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کو کیوں برباد کیا جا رہا ہے۔لیکن جب یوکرائینی فورسز کے ہاتھوں عوام نے اپنے ہی بھائیوں، بہنوں، بزرگوں کر مار کھاتے دیکھا تو بغیر کسی کے بُلائے سب ”آزادی چوک کیو” آگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایسی طاقت بن گئے جس پر پوری دُنیا کی نظریں ہیں۔ دُنیا کے ہر ملک سے آئے ہوئے صحافیوں کی خبروں نے تہلکہ مچا رکھا ہے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ یوکرائین کی پولیس اور فورسز نے بلاوجہ پُر امن مظاہرین پر ہاتھ اُٹھانے میں پہل کی جس کی وجہ سے متعدد افراد لاپتہ بھی ہیں اور لاتعداد زخمی بھی ہیں۔ یہی وہ اہم ترین وجہ ہے جس پر یوکرائین کی موجودہ حکومت اُلٹتی نظر آرہی ہے۔

اب یوکرائینی عوام کیا چاہتی ہے۔ یہ جاننے کے لئے میں نے ہجوم میں موجود کئی افراد سے بات کی جن میں نوجوان طالب علم ،بزگ اور خواتین شامل ہیں۔اُن کا یہی کہنا ہے کہ پہلے تو اس بات کی جنگ تھی کہ ملک کا مستقبل تاریک ہاتھوں میں واپس نہ جائے یعنی سوویت یونین کے بوسیدہ نظام سے مکمل چھٹکارا حاصل کرکے ہمارا ملک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ لیکن اب اس بات کی جنگ ہے کہ ہمارے ہی ملک میں رہنے والے ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والے ہم ہی پر ہاتھ اُٹھا رہے ہیں۔ اس چیز کو روکنے کے لئے ہم وہ تبدیلی چاہتے ہیں جس کی کئی سالوںسے ہمیں ضرورت ہے۔عوام کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلیوں اور فورسز کی سختیوں سے ہم نہیں ڈرتے۔

جب تک اپنے حقوق حاصل نہیں کریں گے تب تک واپس نہیں جائیں گے۔ وہ جذبہ اور اندازِ بیان جو اُن لوگوں سے سُننے اور دیکھنے کو ملا وہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ انقلاب کی آواز بلند کرنے پر آنے والے تو بہت دیکھے لیکن اپنے ملک و قوم کی خاطر خود بخود اکھٹے ہوتے پہلی بار کسی کو دیکھا۔اپنے ملک کے ساتھ یہ وفاء پہلے کبھی نہ دیکھی تھی جو مجموعی طور پر اُس ہجوم میں تھی۔

Inam Ul Haq

Inam Ul Haq

تحریر:انعام الحق