ٹھریر: ایم آر ملک اقتدار وہ آکسیجن ہے جس کے بغیر وطن عزیز کے اصحاب ِ سیاست کی زندگی ممکن نہیں اور نظریاتی ورکر اقتدار کے اس آکسیجن کا ایندھن ہیں مسلم لیگ ن ہو یا پیپلز پارٹی ان پارٹیوں پر قابض ناخدائوں کا شرف ِ کمال ہے کہ الیکشن کے دنوں میں یہ ہر بار نظریاتی ورکروں کو اک نئے خواب کے سانچے میں ڈھال کر نعرے لگواتے ہیں ایک خوشگوار مستقبل کی اُمید لئے یہ ورکرہر بار ان کے دام میں آجاتے ہیں میاں یٰسین آزاد کا شمار بھی ایسے ورکروں میں ہوتا ہے جو قیادت کی ہر بات کو حکم کا درجہ دیتے ہیں جن کا جینا قیادت کیلئے اور مرنا قیادت کیلئے ہوتا ہے مجھے یاد ہے جس روز میاں نواز شریف کی طرف سے تحریک نجات کی کال ملی تو جنوبی پنجاب میں میاں یٰسین ایک ایسا ورکر تھا جس نے ریاستی پولیس کی گنوں کے سامنے اپنی چھاتی اور ڈنڈوں کے سامنے اپنی پیٹھ کئے رکھی چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے
جس کو پولیس نے اُٹھا کر پسِ دیوار زنداں دھکیل دیا پولیس تشددنہ اُس کی پیشانی پر بل ڈال سکا نہ اُسکی آنکھوں میں نمی لاسکا میاں نواز شریف کے اس وفادار سپاہی نے اس سزا کو اپنے لئے ایک اعزاز سمجھا مقدمات کی طوالت اس کے ارادوں میں دراڑ ڈالنے سے قاصر رہے
مگر اس پہاڑ حوصلہ رکھنے والے ورکر کو میں نے اُس روز ٹوٹتے دیکھا جس روز آمرانہ عزائم کی تکمیل میں ایک آمر نے میاں نواز شریف کو جلاوطنی کی سزا دی اس قیامت پر اُس پر چھایا ہوا سکتہ میں نے دیکھا پھر وفا کی انتہا پر کھڑے اس ورکر نے آمریت کے خلاف جنوبی پنجاب میں ایک نئی روایت کے تسلسل کو قائم کیا ساتھی ورکروں کی قیادت کرتا ہوا وہ شاہرات پر اس اُمید کے ساتھ نکلتا کہ جبر کی سیاہ رات کے بعد روشن صبح طلوع ہونے والی ہے 2اپریل 2005کو جب وہ ایک آمر کے خلاف وفائوں کا کارواں لیکر نکلا تو ایک بار پھر لوہے کی زنجیروں میں کھنکھناتی ہتھکڑیاں اُس کا مقدر بن گئیں آمرانہ دور میں وہ پریس کانفرنسیں کرتا اور میڈیا کے سامنے اپنے قائد کی تعریف و توصیف میں حد سے گزر جاتا وہ سیاستدان جو ہمیشہ مفادات کے جھولے جھولتے ہیں
Nawaz Sharif
میاں نواز شریف کی وفائوں کا دم بھرتے نہ تھکتے تھے طوطا چشم ہو گئے اپنے مفادات کی تجوریاں بھرنے کیلئے مشرف حکومت کے دستر خوان پر جا بیٹھے میاں یٰسین آزاد نے ان کٹھن حالات میں اپنی قیادت کا مقدمہ انتہائی جاندار انداز میں لڑا مشرف کا ریفرنڈم آیا تو تو ریاستی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے کیلئے ایک بار پھر میاں یٰسین آزادکمر کس چکا تھا اپنے موقف اور میاں نواز شریف کے ساتھ جڑے ہوئے اٹوٹ نظریات کو اُس نے لوگوں پر واضح کیا اور اپنے ضلع میں ریفرنڈم کے خلاف ایک تحر یک چلائی اور جس روز 10 ستمبر کو میاں نواز شریف نے اپنی ہنگامی آمد کا اعلان کیا تو میاں یٰسین اپنے کارواں کی قیادت کرتا ہوا شہر اقتدار جا پہنچا وہ جن ورکروں کی قیادت کر رہا تھا اُن کے چہروں کا جنون اور خاموش اشتعال اُس وقت طوفان بن گیا جب ایک آمر نے اُن کے قائد کو ایئر پورٹ سے زبردستی ڈی پورٹ کیا دیدار قائد نہ ہونے کی بنا پر ما ہی بے
آب کی طرح تڑپتے یہ نظریاتی ورکر ریاستی پولیس کے مد مقابل آگئے تشدد ،جیل کا ننگا فرش ، سلاخیں اور کلائیوں میں ہتھکڑیاں نظریاتی ورکروں کا ابد سے زیور رہے ہیں ،میاں شہباز شریف کی لاہور اور میاںنواز شریف کی اسلام آباد آمد پر میاں یٰسین آزادکی وفا نے انہیں بخوشی قبول کیا بالآخر مسلم لیگی قیادت وطن واپس لوٹی استقلال اور مضبوطی سے ڈٹے رہنے والے میاں یٰسین آزادجیسے ورکروں جن کے پاس قیادت کے لکھے گئے خطوط بطور سند موجود ہیں کے من میں اُمید کی کرن جاگی کہ اب عزت کا تاج ورکروں کے ماتھے پر ہی سجے گا مگر ایسا شاید ممکن نہ تھا پارلیمانی کلاس ورکروں کے استحصال میں پیش پیش تھی
وہ عوامی نمائندے جن کے سر پر 2002،2008،2013کے الیکشن میں میاں یٰسین آزادکی کاوشوں نے جیت کا سہرا سجایا جو برے وقت میں ہمیشہ آنکھیں پھیر کر قیادت کو مشکلات کے منجدھار میں چھوڑ کر وفاداریاں بدلتے رہے ایک بار پھر ورکروں کے حقوق غصب کرتے دکھائی دے رہے ہیںقیادت پر آنے والی حالات کی کڑی دھوپ میں ڈھال بننے والے میاں یٰسین جیسے ورکر تشنہ رہ گئے ضلعی نشستوں پر عہدوں کی بندر بانٹ کیلئے اُنہوں نے ایکا کر لیا میاں یٰسین آزاد کو جب کوئی اپوزیشن کی پارٹی کا ورکر اُس کی قیادت کے ساتھ وفائیں یاد دلاتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ چشم تر میں اُمڈ آنے والے آنسو دل پر گرنے کو ہیں جب میں میاں یٰسین آزاد جیسے ورکروں کی سسکتی ہوئی زندگی ،روتی ہوئی آرزوئیں ،ٹوٹے ہوئے خواب ،اقتدار میں بھی بے یارو مدد گار دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ان لہو لہان نظریات کی پامالی کا انت کہاں جا کر رکے گا مجھے میاں شہباز شریف اور نواز شریف سے فقط اتنا کہنا ہے کہ پارٹیوں میں میاں یٰسین جیسے نظریاتی ورکروں کا نام ہی بقائے دوام کے آسماں پر آفتاب بن کر چمکتا ہے