تحریر : سید تحسین گیلانی دنیا ہمیں صرف اسی صورت میں سنجیدگی سے لے گی جب وہ دیکھیں گیں کہ ہماری کشمیر کی تحریک کشمیریوں کی جدوجہد ہے نہ کہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین مسلہ ہے گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران کشمیری جس طرز سے اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں جس طرح سے کشمیریوں نے بڑی فوجی طاقت کو گھٹنوں پر لایا ہے یہ نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ اس کا واضع ثبوت ہے کہ کشمیری خود مختار کشمیر کی تحریک کے ساتھ جڑے ہوے ہیں معصوم اور نہتے کشمیری ہندوستان کی افواج کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں کشمیریوں کی ہی طاقت اور ہمت ہے جو کسی خوف وخطرہ کے بغیر ان افواج کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں یہ ایسی حقیقت ہے جس کو ہندوستان قبول کرنا نہیں چاہتا کشمیری ہندوسان کے ساتھ کسی بھی صورت میں رہنا نہیں چاہتے۔
تاہم کشمیر کی صورتحال میں دوبارہ ایک ہی سوال جنم لیتا ہے کہ کیوں ایک قوم گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل اپنے حقوق کے لیے جنگ کر رہی ہے اور ابھی تک حاصل نہیں کر سکے جس ہدف کے حصول کے لیے وہ جنگ کر رہے ہیں میرے خیال کے مطابق شاید ہم تحریک کو غلط سمت کی طرف لے کر چلے گئے یا شاید ہم نے ماضی کے تجربات سے کچھ نہیں سیکھا ان تجربات کو استعمال کر کے موثر طریقے سے پیش رفت نہ کر سکے اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے جو ہماری منزل جو کہ خودمختار جموں کشمیر ہے موجودہ صورتحال جو اب ہم کشمیر میں دیکھ رہے ہیں اس طرز سے ملتی جلتی صورتحال 2008 اور 2010 میں بھی دیکھ چکے ہیں جب ایک بڑی تعداد میں نہتے کشمیری سڑکوں پر ہندوستانی ظلم جبر کے خلاف احتجاج کر رہے تھے تاہم ہندوستانی افواج نے صورتحال کو کئی مہینوں کے بعد کنٹرول کر لیا تھا۔
Indian Army Use Palette Guns
کشمیری آج بھی اسی دوراہے پر کھڑے ہیں بد امنی جس کا آغاز 2016-08-21 سے ہوا اور آغاز سے اب تک کشمیریوں کو قتل کیا جا رہا ہے تشدد اور مختلف اقسام کے سنگین جرائم ہندوستانی افواج کی طرف سے کیے جا رہے ہیں 70 سے زائد معصوم افرد کو قتل کیا جا چکا ہے جن کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ اپنے بنیادی انسانی حقوق مانگ رہے تھے پیلٹ گن کے استعمال سے کئی سو کی تعداد ایسی ہے جن میں بچے بھی شامل ہیں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں کشمیری بے بس ہیں ، کشمیری عوام خود کا دفاع کرنے سے قاصر ہیں عوام مظالم اور جرائم کا شکار ہیں او ر یہ تمام مظالم اور جرائم کرنے والوں کو دنیا میں بڑی جموریت پسند تصور کیا جاتا ہے تاہم میرے خیال کے مطابق ہم اسی سمت کی طرف جارہے ہیں جہاں ہم 2008 اور 2010 میں تھے اور اس کا نتیجہ بھی وہی نکلے گا کشمیریوں کی مانگ کو ہندوستان ایک مرتبہ پھر کچل دے گا ہم سفارتی سطح پر ہم کمزور رہے ہیں اور اس بنیاد پر جو میں نے کئی سالوں سے مشاہدہ کیا ہے کہ ہمیں بین الاقوامی سفارتی مدو حاصل کرنے کے لیے بنیادی طور پر دو اہم چیزوں کی ضرورت ہے سب سے پہلے ہمیں خود یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ہم نا انصافی کا شکار ہیں دوسرا کام ہمیں یہ کرنا ہو گا ( جو شاید بہت اہم ہے ) کہ ہمیں اپنی صلاحیت قوت اور استعداد کو دکھانا ہو گا اور تمام بین الاقوامی دنیا کو ان کے فوائد سے آکاہ کرنا ہو گا جو آپ کی مدد کر رہے ہیں۔
کشمیری واضع طور پر قابضین کی جارحیت کا شکار ہیں ہم نے گزشتہ دہاہیوں میں ظالمانہ اور غیر قانونی قبضہ کشمیر کے خلاف اس تحریک میں ہم نے ہزاروں معصوم جانوں کی قربانی دی ہے اور ابھی تک ہم کسی نہ کسی طرح اس کو عالمی سطح پر ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہمارے حق خوداراریت کو دبانے کے لیے جس طرح کشمیر میں جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے ہم اس کی طرف خاص توجہ کو حاصل کرنے میں ناکام ہوئے ہیں بنیادی وجوہات شاید واضع نہ ہو لیکن وحشت واضع ہے مسلہ کشمیر کو ہمیشہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مسلہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے بجائے اس کے کہ اس کو دیکھا جائے کہ یہ ایک قوم کی خودمختار ی کی تحریک ہے جس پر قابضین کا غیر قانونی قبضہ ہے۔
Kashmir Issue
اس مسلہ کو محض جغرافیائی حدود ہندوستان اور پاکستان کے مابین مسلہ کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہیہندوستان کشمیریوں کی تحریک کو سامنے پار سرحد سے دہشت گردی کے طور پر پیش کرتا ہے گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیر میں منظم طور پر حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں دنیا کے سامنے ہمیں اجازت ہونی چاہیے کہ اس مسلہ پر ہم اپنے ایک مظبوط سفارتی مقف کی تعمیر کر سکیں لیکن یہ سب کچھ ہندوستان کرتا ہے بغیر کسی کوشش کے اور ہم اس کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں چند پاکستانی جھنڈوں کو اپنے احتجاج میں اور جنازہ کی ادائیگی پر لہرا کر ہم ہندوستان کے مقاصد کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں ہمیں یہ سب کچھ روکنا ہو گا ہمیں اس تحریک کو اپنا بنانا ہو گا اور جب تک ہم یہ نہیں کرتے اس وقت تک ہم عالمی دنیا کی توجہ اور مدد حاصل نہیں کر سکتے۔
کشمیر میں ہونے والے جرائم اور اپنے حق خودارادیت کی طرف اہم توجہ کے حصول سے قاصر رہیں ہیں اس کی بنیادی وجہ اگرچہ واضع نہیں لیکن وحشت یقینن واضع ہے کشمیر کا مسلہ ہمیشہ کی طرح ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازع کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ایک اور بات ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیر ایک خودمختار ریاست نہیں ہے اور یہ اس پوزیشن میں نہیں ہے جہاں بین الاقوامی کھلاڑی ایک خودمختار کشمیر کے ساتھ فوائد کو دیکھ سکیں اسی وجہ سے اس کو ہندوستان اور پاکستان کے مابین مفادات کے تناظر میں پیش کیا جاتا ہے بین الاقوامی کھلاڑیوں ، سرمایہ دار وں کی حکمت عملی اور ان کا فائدہ معتدد بڑی منافع بخش ریاستوں کے اندر ہے اور کشمیریوں کو سوچنا ہو ہو گا کہ مسلہ کا حل کو حاصل کرنے کے لیے اس کو ہندوستان اور پاکستان کے مابین تنازع بنا کر پیش کرنے سے کیا اس کا حل ہو گا یہ سوچ واضع طور پر سطحی بیوقوفانہ اور احمقانہ ہے اس مسلہ کا واحد دیرپا حل کا حصول صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب کشمیری اس مسلہ کو خود پیش کریں جب کشمیریوں کے خلاف مظالم کا ارتکاب کیا جائے اور ان مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے جب کشمیری ہندوستان اور پاکستان پر یہ واضع کریں اور بین الاقوامی دنیا پر بھی واضع کریں کہ کشمیر کا مسلہ زمین کے تنازعہ کا مسلہ نہیں ہے یہ مسلہ ہزاروں معصوم کشمیریوں کی جانیں لے چکا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
جس جرات ، جزبہ ، بہادری اور عزم کا مظاہرہ اس وقت کشمیری نوجوان کر رہے ہیں اس پر ہر ایک کشمیری کو فخر ہے دنیا میں زیادہ قومیں نہیں ہیں جنہوں نے اس طرح کے حالات میں زیادہ دیر تک اس طرح کے عزم کا مظاہرہ کیا ہو تاہم ایک لمحہ کے لیے رکیں اور سوچیں یہ غیر ملکی جھنڈے جو ہم ہندوستان سے نفرت کو دکھانے کے لیے لہراتے ہیں در حقیقت میں ہم اپنی تحریک کو نقصان پہنچا تے ہیں اس طرح غیر ملکی جھنڈے لہرانے سے ہندوستان کے غیرقانونی مقف کو مظبوط بناتے ہیں کیا اس سے کشمیر کے مسلہ کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے ؟ ہمیں اپنے مطالبات کو واضع بنانے کی ضرورت ہے ہمیں حساس اور جزباتی عناصر سے دور رہنا ہو گا اور اپنی توجہ کو اپنے شاندار مستقبل کی طرف مرکوز کرنا ہو گا اگر ہم نے اپنے آپ کو غیر ملکی قبضہ سے آزاد کروانا ہے ہمیں جدوجہد کرنی ہو گی اور بے حد کوشش کرنی ہو گی خودمختار کشمیر کے لیے جہاں ہم اپنے حقوق کو حاصل کر سکیں ہمارا مستقبل اور ہماری زندگیاں محفوظ ہوں اور ہمیں بھی ایک عزت کا مقام حا صل ہو ہمیں بیحد کوشش کرنی ہو گی۔
Kashmiris Protest
ایک خود مختار قوم کے لیے جس سے امن ، محبت اور مساوات کو کو فروغ حاصل ہو گا اور وہ سب کچھ جو ہمارے غاصب ہمیں دینے میں ناکام ہوے ہیں اور یہ سب کچھ سالوں سے واضع ہو چکا ہے گزشتہ چند ہفتوں سے ایک مثبت رویہ اختیار کیا گیا ہے دانشوروں ،ادیبوں ،سرگرم کارکنوں اور کچھ سیاستدانوں کی جانب سے جو ہندوستان اور پاکستان میں ہیں جو بہت زیادہ ممکن ہے پر امن ہے اور پائیدار دیرپا حل اور مسلہ کو حل کرنے میں مضمر ہے کہ ریاست کو مکمل خودمختار کر دیا چائے کشمیریوں کو چاہیے کہ وہ اس سوچ کی مدد کریں اور اس کے فروغ کے لیے جدوجہد بھی کریں اسی سوچ کے ذریعہ ہم دنیا میں واضع پیغام بھیج سکتے ہیں یہ تحریک کشمیریوں کے اپنے حقوق کی تحریک ہے اس کو دبایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اس تحریک کو کوئی بھی ہائی جیک کر سکتا ہے ہم اپنی تحریک کے فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکیں ہیں اور یہ ہی وقت ہے جب ہم نے اپنی سمت کا تعین کرنا ہے اور منزل کی واضع شناخت کرنی ہے یہ ہمارا مستقبل ہے اگر ہم نے اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش نہ کی تو کوئی اور بھی نہیں کرے گا آئیں اپنی اس تحریک کو استعمال کر کے اپنی منزل کو حاصل کریں۔