افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) غیر ملکی افواج کے لیے کام کرنے والے مقامی افغان باشندوں کو طالبان نے یقین دلایا ہے کہ ہندو کش کی اس ریاست سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد وہ اپنے وطن میں محفوظ رہیں گے۔
افغان طالبان کی طرف سے سامنے آنے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ افغان باشندے جو غیر ملکی افواج کے لیے کام کرتے تھے انہیں فوجی انخلا کے بعد اپنا ملک ترک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ بالکل محفوظ رہیں گے۔ طالبان کے اس بیان میں خاص طور سے کہا گیا کہ ” کسی کو بھی فی الحال اپنا ملک نہیں چھوڑنا چاہیے۔ دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا داعش انہیں پریشان نہیں کرے گی۔‘‘
عشروں سے جنگ، جارحیت اور تشدد کے شکار ملک افغانستان میں گزشتہ بیس سالوں کے دوران مقامی افغان باشندوں نے اپنی سرزمین پر تعینات امریکی اور دیگر بین الاقوامی فورسز کے لیے بطور مترجم، سکیورٹی گارڈز اور دیگر شعبوں میں ان کے لیے امدادی خدمات انجام دی ہیں۔ اب ان مقامی افغان باشندوں کو سخت خدشات لاحق ہیں کہ ان کے ملک سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد انہیں طالبان سے شدید خطرات لاحق ہوں گے کیونکہ طالبان کی طرف سے انتقامی کارروائی کے امکانات قوی ہیں۔ ان خدشات کے سبب بہت سے افغان باشندوں نے ملک ترک کرنے کے ارادے سے مختلف بیرونی ممالک میں خصوصی ویزے کی درخواست دے رکھی ہے۔ بہت سے ممالک جن میں امریکا، جرمنی اور برطانیہ شامل ہیں نے اپنے مقامی عملے کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے اپنے پروگرام تیار کر رکھے ہیں۔
جرمن فوج نے بھی افغانستان سے اپنے فوجی سازوسامان واپس جرمنی لانا شروع کر دیا ہے۔
کابل میں قائم امریکی سفارتخانے کے اعداد و شمار کے مطابق 18 ہزار افغان باشندوں نے خصوصی امیگریشن ویزا کی درخواستیں دے رکھی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ہزاروں ایسے افغان مقامی باشندے جنہوں نے غیر ملکی افواج کے لیے افغانستان میں خدمات انجام دی تھیں، متعلقہ ممالک میں نئے سرے سے آباد ہو چُکے ہیں۔
امریکی غیر سرکاری تنظیم No One Left Behind کے ذرائع کے مطابق قریب 300 افراد جنہوں نے امریکی فوج اور فوجیوں کے خاندانوں کے لیے بطور مقامی عملہ اپنی خدمات انجام دی تھیں 2016 ء سے اب تک ہلاک ہو چُکے ہیں۔
ماضی میں عسکریت پسند کہہ چُکے ہیں کہ ” حملہ آوروں کے ساتھ کام کرنے والے افغان غدار یا غلام ہیں۔‘‘
افغان طالبان رو رو کر دھماکوں کو حملوں کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔
امریکی غیر سرکاری تنظیم ‘ نو ون لفٹ بیہائنڈ‘ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ اب یہ عسکریت پسند یا طالبان باغی گروپ مقامی افغانوں سے ان کے ماضی کے اقدامات اور غیر ملکی افواج کو جو انہوں نے اپنی خدمات پیش کی تھیں اُس پر ‘معذرت‘ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور انہیں تاکید کرنا چاہتے ہیں کہ یہ مستقبل میں پھر کبھی اس طرح کی سرگرمیوں میں شامل نہ ہوں۔
طالبان کی طرف سے دیے گئے تازہ ترین بیان میں مزید کہا گیا،” جب وہ براہ راست ہمارے سامنے دشمن کی حیثیت سے کھڑے تھے تب ہم نے انہیں دشمن کی حیثیت سے ہی دیکھا تاہم جب انہوں نے دشمنوں کی صفوں کو ترک کر دیا اور ایک عام افغان شہری کی طرح اپنے ملک میں زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کر لیا تو انہیں کسی قسم کی پریشنانی اور مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘