تحریر : قادر خان افغان سعودی عرب نے پاکستان کے مسلح افواج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو39اسلامی ممالک کی مسلح فوج کا سربراہ مقرر کردیا ہے ، جس کی تصدیق پاکستانی وزارت دفاع نے بھی کردی ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ یہ فیصلہ پاکستان کی موجودہ حکومت کو اعتماد میں لینے کے بعد کیا گیا اور اسے پہلے پاکستان میں حتمی شکل دی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ ایسے کسی اسائنمنٹ یا تعیناتی کے لیے حکومت اور جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کی باقاعدہ کلیئرنس کی ضرورت ہوتی ہے اور سابق آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے معاہدے کو حتمی شکل دیئے جانے سے قبل قانونی عمل کی پیروی کی گئی ۔سعودی اتحادی افواج میں اطلاعات کے مطابق مصر، قطر اور عرب امارات کے علاوہ ترکی ، ملایشیا ، پاکستان اور کئی افریقی ممالک بھی شامل ہیں۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس اتحاد میں میں سعودی عرب نے اپنی روایتی حریف ایران ، عراق اور شام کو شامل نہیں کیا تھا، جس پر ایران سعودی حکمرانوں پر سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں، سعودی عرب جب اپنے اتحادی افواج کی کمان کر رہا تھا تو یہ قیاس آرائی کیں جاتی رہی تھیں کہ واحد ایٹمی طاقت پاکستان میں اس کا کیا رول ہوگا اس سے پاکستان وزرات خارجہ و دفاع نے عوام کو لاعلم رکھا ہوا تھا، جو اب جا کر ڈراپ سین ہوا ہے۔ پاکستانی افواج سے متعلق یہ ضرور کہا گیا کہ وہ سرزمین حجاز کی ہر قیمت پر حفاظت کرے گی ، لیکن کسی زمینی جنگ کا براہ را ست حصہ نہیں بنے گی۔ اسلامی دنیا اور یہود ونصای اور ہنود کے درمیان کیا کسی نئی تیسری جنگ کا آغاز ہونے والا ہے کیونکہ شام میں جس طرح روس، بشار الاسد کی مدد کررہا ہے ، اور ایران نے اپنی افواج کوشام سے بلانے سے یکسر انکار کرکے یمن میں بھی اپنی فرقہ وارانہ پالیسیاں جاری رکھی جسکی وجہ سے مسلم ممالک میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔
افغانستان میں طالبان غالب ہو رہے ہیں ان کی کمک کیلئے مزید امریکی افواج ہلمند پہنچی۔ پاکستان اپنی خارجہ پالسیوں پر نظر ثانی کرتا جا رہا ہے ۔روس کیساتھ ماضی کے تلخ اختلافات بھلا کر ایک نئے ایٹمی بلاک کو طاقت ور بنانے پر توجہ مرکوز کردی ہے جس میں چین ، روس پاکستان شامل ہیں ، سعودی حکام نے اسلامک اسٹیٹکو بنیاد بنا کر پاکستان کا نام بھی اس اتحاد مسلم سنی افواج میں شامل تو کردیا تھا لیکن وزرات خارجہ نے کسی قسم کا ایسا کوئی ردعمل نہیں دیا کہ سمجھا جاسکے کہ کیا اسلامی ممالک کی اس فوج کا تعلق صر ف حوثی قبائل اور سعودی عرب کے تحفظ تک رہے گا یا پھر کشمیر ، فلسطین، بھارت، رویہنگیا ، افریقہ سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ظلم پر کوئی عسکری کردار ادا کرسکے گا ۔ تاہم ابھی تک تو یہ اتحادی افواج سعودی عرب کے دفاع تک محدود ہی۔ جب امریکہ یہ کہتا ہے کہ یہ اسلامی 34ممالک کا اتحاد اس کی حکمت عملی کے عین مطابق ہے تو اس میں کوئی شک و شبے کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ دال میں کالا ضرور ہے یا پھر پوری دال ہی کالی ہے۔ عسکری امور نظر رکھنے والے ویب پورٹل گلوبل فائر پاور کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب دنیا دفاعی اعتبار سے دنیا کا دوسرا طاقتور ترین ملک ہے اور اس کا شمار بہترین پیشہ وارنہ افواج میں کیا جاتا ہے۔
مصر ، دفاعی اعتبار سے دنیا کی13ویں اور عرب دنیا کی پہلی بہترین فوج کا درجہ رکھتی ہے۔سعودی عرب دوسری پوری دنیا کی 25بڑی فوج رکھتا ہے۔، شام عرب ممالک کی مسلح افواج میں تیسرے اورعالمی سطح پر 26ویں نمبر ہے ۔الجزائر عرب ممالک میں چوتھے اور عالمی سطح پر31نمبر پر ہے۔متحدہ عرب امارات عرب دنیا کی پانچویں بڑی فوج اور عالمی سطح پر42ویں دفاعی طاقت سمجھا جاتا ہے۔یمن داخلی سوش کی باوجود عرب ممالک میں چھٹے نمبر پر اور عالمی سطح پر 45واں درجہ رکھتا ہے۔اردن ساتویں عرب ممالک اور عراق دنیا کی پانچویں اور عرب ممالک کی پہلی دفاعی طاقت تھا لیکن اب یہ عرب ممالک کی آٹھویں اور دنیا کی 68ویں فوجی طاقت پر آگیا ہے۔سلطنت آف عمان عرب دنیا کی نویں طاقت اور عالمی سطح پر اسے 56واں درجہ حاصل ہے۔کویت عرب ممالک میں دسویں دفاعی طاقت اور عالمی فوجی طاقت کے 74ویں نمبر پر ہے۔جبکہ پاکستان دنیا کی طاقت ور ترین افواج میں گیارہ واں نمبر پر ایٹمی طاقت کے ساتھ ہے ، ترکی دنیا کی چوتھی بڑی طاقت ور فوج کا درجہ رکھتا ہے۔ترکی اور روس کے درمیان روز بہ روز ہونے وانے والے کشیدہ تعلقات اور امریکی روس کی سرد جنگ کے ساتھ چین ایک نئی طاقت کے ساتھ دنیا میں امریکہ کو مکمل طور پر چیلنج کررہا ہے ۔اب سی پیک میں چین اور پاکستان کی جانب سے روس کو شامل کرنے کی منظوری نے امریکہ کی عالمی حکمرانی کو چیلنج کردیا ہے۔بھارت انسانی تعداد اور ہتھیاروں میں دنیا میں چوتھی پوزیشن پر موجود ہے لیکن جنگو ں میں ایسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 71 ء کے تحت مشرقی پاکستان کو الگ کیا اور اب سازش کے تحت افغانستان اور پاکستان کے اندرونی معاملات کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور بھارت کا انتہا پسندانہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوتا چکا ہے۔
Organization of Islamic Cooperation
39ملکی فوجی اسلامی ممالک کے کردار کو او آئی سی ( اسلامی تعاون تنظیم )کی طرح غیر فعال ہوجائے گی یا پھر دائرہ اختیار سر زمین حجاز کے تحفظ سے آگے بھی بڑھے گا ، اس پر تحفظات ضرور موجود ہیں۔ جس طرح اعلی عدلیہ نے پوچھا کہ ا و آئی سی اپنی مرضی سے اجلاس بھی بلا سکتی ہے۔ جس پر مضحکہ خیز اثبات میں جواب دیا گیا ۔صلیبی و صہیونی قوتیں سعودی اتحاد افواج کو لڑا کر اپنا اسلحہ فروخت کرنے کی نئی فیکٹریاں اسلحہ بنانے میں مزید مصروف ہیں جس کی وجہ سے ، مغرب مالیاتی بحران سے باہر نکل رہا ہے ۔ جس کا جواب ایک عام انسان کو بھی دینا بہت مشکل نہیں ہوگا کہ امریکہ اس بار ایک نئیحکمت عملی کے ساتھ سنی و شیعہ کی تفریق کے ساتھ ایک نئے جہاد کی آبیاری کرنا چاہتا ہے۔ دنیا مزید مہلک جنگوں کی جانب گامزن ہے اور اس کاسہرا امریکہ ، برطانیہ اور یورپ کے سر باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ پہلے القاعدہ روس کے خلاف جہاد کے نام پر بنائی ، پھر اس کے بطن سے افغان طالبان نکلے تو اب ٹیسٹ بی بی اسلامک اسٹیٹ کی سرپرستی G20ممالک کر رہے ہیں ۔ جن سے مقابلہ وہ خود نہیں کرسکتے اس لئے امریکہ اب سعودی عرب کو دنیا کی طاقت ور ترین مسلم ممالک کو کمزور کرنے کیلئے جنگ کی آگ میں جھونکنا چاہتا ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلامی افواج کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کرائے گی، فلسطین کی آزادی کیلئے کردار مستقبل میں نظر نہیں آتا ، ترکی کے ساتھ ہم رکاب نہیں ہوسکتے ، ایران کو گلے نہیں لگا یا جا سکتا ، بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو نہیں روکنا پالیسی میں شامل نہیں، افریقہ میں مسلم امہ پر ظلم کے پہاڑ پر مسلم ڈھال نہیں رکھیں گئ، روہینگیا کے مسلمانوں کی داد رسی نہیں کی جائے گی ، برطانیہ میں مسلمانوں پر300فیصد اضافے حملوں کو نہیں روک سکتے ، امریکہ کو مسلم ممالک کے خلاف جارحیت کیلئے حلیہ سازی کرنے سے باز نہیں رکھ جا سکتا ۔افغانستان کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانا کیلئے عسکری مدد فراہم نہیں کی جائے گی ۔ پاکستان کی دفاعی ضروریات پوری کرنے کیلئے پہلے انسانی جانیں درکار ہیں ۔ یمن ، شام اورعراق میں مداخلت پر ایران سے پہلے لڑنا ہوگا ۔غرض یہ ہے کہ ان39،،ممالک کے ایجنڈا مکمل واضح نہیں ہے اب سابق چیف آف آرمی اسٹاف کو سعودی اتحاد کا سربراہ مقرر کئے جانے کے بعد ،ان قیاس آرائیوں کی تصدیق ہوگئی کہ سابق چیف آف آرمی اسٹاف ، اپنی مدت ملازمت میں توسیع کیوں نہیں چاہتے تھے۔
بلاشبہ ان کا مدت ملازمت میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ قابل ستائش تھا اور آئندہ آنے و جانے والوں کے لئے ایک مثال بھی ہے۔ پاکستان کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) راحیل شریف نے پاکستان میں امن کے قیام کے جو کردار ادا کیا ہے ، اس کی پوری دنیا معترف ہے ، لیکن اب اسلامی ممالک کی نئی کمان حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں آپریشنز کے بعد حاصل کئے گئے تجربے سے وہ سعودی فوجی اتحاد کو کتنا فائدہ دے سکیں گے ، یہ آنے والا وقت اور سعودی مملکت کے حکمرانوں کی پالیسیاں طے کریں گی۔ سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) راحیل شریف کے سامنے اب عالمی چیلنجز ہیں ، جن کا براہ راست تعلق پاکستان سے بھی بنتا ہے۔ خاص طور پر ایران کے حوالے سے سعودی حکمرانوں کی پالیسیوں اور پاکستان کی پالیسیوں میں واضح فرق ہے ۔ پاکستان ، ایران کے ساتھ ہمسایہ ہونے کے ناطے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے ، جبکہ سعودی حکمراں ، ایران کی شدت پسند پالیسیوں کو عرب ممالک کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ ایران واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ شام کی جنگ میں اگر ایران اپنا کردار ادا نہیں کرتا تو یہ جنگ تہران کے دفاع تک پہنچ جاتی ، پاکستانی افواج کے سابق سربراہ پاکستان کے زمینی حقائق سے بھی بخوبی آگاہ ہیں ،اور بلوچستان میںایران اور بھارت کی مداخلت سے اور در اندازیوں کو فراموش نہیں کرسکتے۔گو کہ پاکستان ، بھارت کیجانب سے در اندازیوں پر احتجاج کرتا رہا ہے ، لیکن ایران کی جانب سستیان تفتان بارڈر سے در اندازیوں پر کبھی ایران سے احتجاج نہیں کیا۔راحیل شریف اس عالمی جنگ میں کیا کردار ادا کرتے ہیں ، یہ غیر واضح نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ کیا سعودی حکومت کے ایران ے کشیدہ تعلقات اور ایک پاکستانی جنرل کی سربراہی میں اتحادی فوج کی ایران کے خلاف کاروائیاں پاکستان پر اثر انداز ہونگی کیونکہ ایران کے ذرائع ابلاغ نے اسلامی افواج کے سربراہ کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کردی ہے۔