اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ وہ فوری طور پر بیجنگ جائیں گے اور چینی قیادت سے بات چیت کریں گے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی حج کیلئے سعودی عرب میں تھے تاہم مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے بعد وہ واپس پاکستان پہنچے ہیں۔
وزیر خارجہ نے وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی جس کے بعد وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پہنچے۔
مشترکہ اجلاس سے خطاب میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یکم اگست کو اپنے تحفظات اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو مراسلے کی صورت میں بھیجے جس میں ان سے مداخلت کرنے اور کردار ادا کرنے کو کہا، یہ مراسلہ سیکیورٹی کونسل کے ہر ممبر میں تقسیم کرنے کا بھی کہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ نہتے کشمیریوں پر پہلی بار کلسٹر بم برسائے جا رہے ہیں لہٰذا عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو آج کردار ادا کرنا چاہیے، مشترکہ اجلاس کا مقصد یکجہتی کا پیغام دینا ہے، نہتے اور مظلوم کشمیری عوام کو پیغام دینا ہے کہ کل بھی ان کے ساتھ تھے آج بھی ہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں سے ایوان کو آگاہ کیا اور کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے 5 بڑے اہم فیصلے کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ہی ممکن ہے کہ بیجنگ جاؤں اور چینی قیادت سے بات چیت کروں۔
بعد ازاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جو اقدامات لیے وہ بتادیے ہیں اورجو مزید لیں گے، وہ بھی بتائے جائیں گے۔
چین کے علاوہ دیگر ممالک کے دوروں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ جو بتانا تھا، اندر بتا دیا بس تھوڑا سا انتظار کریں۔
بھارت نے 5 اگست کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا تھا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔
راجیہ سبھا میں بل کے حق میں 125 جبکہ مخالفت میں 61 ووٹ آئے تھے۔
بھارت نے 6 اگست کو لوک سبھا سے بھی دونوں بل بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالیے ہیں۔
آرٹیکل 370 کیا ہے؟ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔
بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔
پاکستان نے بھارتی اقدام کو مسترد کرتے ہوئے عالمی فوجداری عدالت میں جانے کا عندیہ دیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارت کے صدارتی آرڈیننس کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جسے بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ بھارت کے یکطرفہ اقدامات سے کشمیر کی حثیت تبدیل نہیں کیا جا سکتی، بھارت کے ایسے اقدامات کشمیریوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان بھارت کے اس غیر قانونی اقدام کے خلاف تمام آپشنز بروئے کار لائے گا اور پاکستان کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (انٹرنیشنل کرمنل کورٹ) جانے کا اشارہ دیا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چوینگ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پرکشیدگی اور آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے متعلق سوالات پر تحریری جواب میں کہا کہ چین کو کشمیر کی موجودہ صورتحال پر ‘شدید تشویش’ ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ چین نے سرحدی علاقے میں بھارتی مداخلت کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اور اس بارے میں ہمارا مؤقف واضح اور مستقل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے اپنا قانون یکطرفہ تبدیل کرکے ہماری خودمختاری کو نقصان پہنچایا، ایسے اقدامات ناقابل قبول اور کبھی قابل عمل نہیں ہوسکتے۔
ترجمان کے مطابق بھارت سرحدی معاملات پر بیان اور عمل میں ہوشمندی کا مظاہرہ کرے اور بھارت چین سے کیے گئے معاہدوں پر قائم رہے، بھارت ایسے کسی بھی عمل سے باز رہےجو سرحدی امور کو مزید مشکل بنا دے۔