خارجہ پالیسی میں پاکستان اپنے مفادات کو مقدم رکھے گا

Sartaj Aziz

Sartaj Aziz

تحریر : سید توقیر حسین زیدی
مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ امریکہ مطلب پرست دوست ہے، مطلب نہ ہو تو امریکہ کا رویہ بدل جاتا ہے، ضرورت پڑنے پر ہمارے پاس آتا ہے کام نکل جائے تو پوچھتا تک نہیں۔ اس کے ساتھ تعلقات غور طلب ہیں امریکہ پندرہ سال میں افغانستان میں امن قائم نہیں کر سکا، ہم سے فوری کامیابی کی توقع کیوں کی جا رہی ہے۔نوشکی ڈرون حملہ پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کے خلاف تھا، جس سے افغان امن عمل متاثر ہوا اِس حملے پر اقوام متحدہ میں نئی قرارداد لائیں گے۔ چین کے ساتھ سٹرٹیجک پارٹنر شپ کا قیام موجودہ حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا، بھارت کے ساتھ تعلقات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ بھارتی جنگی اخراجات پر تشویش ہے، مسئلہ کشمیر کو دْنیا کے ہر فورم پر اْٹھائیں گے۔

افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے چار فریقی رابطہ گروپ کی کوششیں جاری ہیں، بھارت سے ہمارے تعلقات اس وقت ٹھیک ہوں گے، جب جنوبی ایشیا میں علاقائی استحکام ہو گا۔ یورپی یونین اور روس سے تعلقات مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں اْتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، کبھی یہ بہت اچھے ہو جاتے، کبھی معمول کی سطح پر ہوتے ہیں اور بعض اوقات خرابی کی بھی نچلی سطح پر پہنچ جاتے ہیں اور اس کی وجہ بھی کوئی نہ کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے۔ 2011-12 میں یہ تعلقات بڑی نچلی سطح پر آ گئے تھے اس وقت اِن کی خرابی کی وجہ ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ تھا ،جس نے لاہور میں گولی چلا کر دو پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اْتار دیا۔ امریکہ نے پہلے ریمنڈ ڈیوس کے لئے سفارتی تحفظ مانگا۔

حالانکہ وہ ایسے کسی تحفظ کا حق دار نہ تھا، امریکہ ریمنڈ ڈیوس کی فوری رہائی کے لئے کوششیں کرتا رہا، پھر مقتولین کے ورثا کو خون بہا ادا کر کے اس کی رہائی ممکن ہوئی۔ سلالہ کی چیک پوسٹ پر نیٹو کے حملے اور ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی گرفتاری کے لئے آپریشن کے باعث دونوں ملکوں کے سٹرٹیجک تعلقات معطل ہو کر رہ گئے تھے۔2013ء کے بعد بہتری کا عمل ایک بار پھر شروع ہوا اور سٹرٹیجک ڈائیلاگ کا آغاز بھی ہو گیا، پھر پاکستان کے جوہری پروگرام پر امریکہ کا اختلاف سامنے آیا۔ پاکستان کا بنیادی اور مبنی برحق موقف ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر سٹرٹیجک ڈیٹرنس کا اختیار کسی کو نہیں دے گا۔ اس کا ہم خود فیصلہ کریں گے اور اس پر کوئی بات نہیں کریں گے۔

India

India

بھارت خطے میں تیزی سے اپنی جوہری صلاحیتیں بڑھا رہا ہے اور اس نے جو میزائل شکن پروگرام شروع کیا ہے اس نے پاکستان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بھارتی نظام کی وجہ سے پاکستان کے میزائلوں کی صلاحیت بھی محدود ہو گئی ہے اور اگر پاکستان نے اِس سلسلے میں اپنی دفاعی صلاحیتوں کو اَپ ڈیٹ نہ کیا تو بھارت اِس معاملے میں بالادست ہو جائے گا اور خطے کا امن بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ امریکہ پاکستان کو اپنا ”نان نیٹو اتحادی” تو کہتا ہے لیکن سول ایٹمی ٹیکنالوجی اور نیو کلیئر سپلائر گروپ (این ایس جی) کی رکنیت کے حصول کے لئے وہ نہ صرف پاکستان کی کوئی مدد نہیں کر رہا، بلکہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہے اور بھارت کو ہر حالت میں اِس گروپ کا رکن دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ تو چین کی فیصلہ کن پالیسی ہے جس کی وجہ سے بھارت کو گروپ کی رکنیت نہیں مل رہی۔ چین کا موقف ہے کہ بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی رکن بنایا جائے،بصورت دیگر بھارت کی رکنیت کا بھی کوئی جواز نہیں۔

چین کے ساتھ پاکستان نے جو سٹرٹیجک تعلقات بنائے ہیں اور چین46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے جو پاک چین اقتصادی راہداری تعمیر کر رہا ہے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کو دونوں ملکوں کی یہ قربت پسند نہیں آ رہی۔ بھارت پہلے ہی اِس سے جلا بْھنا بیٹھا ہے اِس لئے دونوں ملکوں کے اس مشترکہ دْکھ نے اْنہیں قریب تر کر دیا ہے اور امریکہ بھارت کی اس نئی نئی دوستی سے اتنا نہال ہو رہا ہے کہ اْسے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کتنی قربانیاں دی ہیں اور اس جنگ میں اْسے کتنا زیادہ نقصان اْٹھانا پڑا ہے، امریکہ نے کولیشن سپورٹ پروگرام کے تحت اِس سلسلے میں پاکستان کو جو امداد دی اور جس کا بڑے فخر سے اظہار کیا جاتا ہے وہ اْن نقصانات کے مقابلے میں بہت معمولی تھی، جو پاکستان کو اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے اٹھانا پڑے اور آج تک جن کا سلسلہ رک نہیں پایا۔امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں تازہ پیچیدگی کی ایک وجہ بلوچستان میں امریکی ڈرون طیارے کا حملہ بھی ہے یہ معاملہ امریکہ کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر اْٹھانے کی ضرورت ہے۔

سرتاج عزیز نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ امریکہ مطلب پرست دوست ہے۔ واقعی ایسا ہے تو کیا ہمارے لئے امریکہ کے اس روئیے میں کوئی سبق نہیں۔ ہمارے لئے سبق یہ ہے کہ ہم بھی اپنی خارجہ پالیسی کو امریکی خارجہ پالیسی کی طرح اِس انداز میں مرتب کریں کہ اس سے پاکستان کے مفادات کا زیادہ سے زیادہ تحفظ ہو سکے۔ امریکہ اگر اپنے مفادات کو مقدم رکھتا ہے تو کوئی بھی امریکی اپنی اِس پالیسی کا دفاع ہی کرے گا، کیونکہ ملکوں کے تعلقات ہمیشہ مفادات کے تابع ہوتے ہیں، امریکہ اگر اپنا مفاد ہمیشہ مقدم رکھتا ہے تو اسے ایسے ہی کرنا چاہئے، لیکن ہمیں بھی ہمیشہ اپنا مفاد سامنے رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی بنانی چاہئے اور اگر موجودہ حالات خارجہ پالیسی میں کسی جوہری تبدیلی کا تقاضا کرتے ہیں تو اِس تبدیلی سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ہم خود اپنا مفاد سامنے نہیں رکھیں گے تو دْنیا کو کیا پڑی ہے کہ وہ ہمارے مفاد کے لئے ہلکان ہوتی رہے؟ ہمیں اپنا مفاد ہر قیمت پر سامنے رکھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔

Syed Touqeer Hussain

Syed Touqeer Hussain

تحریر : سید توقیر حسین زیدی