افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) طالبان عسکریت پسندوں نے نیٹو فورسز کے کمانڈر جنرل اسکاٹ مِلر کے اُس بیان کا خیر مقدم کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کا عمل یکم مئی سے شروع ہو جائے گا۔
طالبان عسکریت پسندوں نے افغانستان سے بین الاقوامی فوج کے انخلاء کا خیر مقدم کیا ہے۔ طالبان کی طرف سے امریکی اور نیٹو فورسز کے کمانڈر جنرل اسکاٹ مِلر کی طرف سے اتوار 25 اپریل کو افغان دارالحکومت کابل میں دیے گئے اُس بیان کی پذیرائی کی ہے جس میں جنرل اسکاٹ ملر نے کہا تھا کہ انخلاء کا عمل یکم مئی سے شروع ہو جائے گا۔
طالبان کی ویب سائٹ پر پیر اور منگل کی درمیانی شب شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں طالبان عسکریت پسندوں نے تحریر کیا، ”انخلاء کا یہ اعلان قابل تعریف ہے۔‘‘ اس آرٹیکل میں مزید درج ہے، ”افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی جنگ کی بنیادی وجہ ہے۔ اب ہمیں یہ خوش امیدی ہوئی ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کا تنازعہ ختم ہو جائے گا اور مستقبل میں افغان شہری پُر امن طریقے سے زندگی گزار سکیں گے۔‘‘
امریکا کی طرف سے گرچہ رواں مہینے یعنی اپریل کے وسط میں اعلان کیا گیا تھا کہ امریکی فورسز کے انخلاء کے منصوبے کے تحت ہندوکش کی ریاست افغانستان سے اس سال 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجیوں کو ان کے ملک واپس بلا لیا جائے گا۔ اس کے بعد مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے بھی عشروں سے جنگ زدہ اس ملک سے اپنی فوجیں واپس بلا لینے کا اعلان کر دیا تھا۔امريکا اور طالبان کی امن ڈيل کا ايک سال، اب تک حاصل کيا ہوا؟
دریں اثناء چار جولائی ہی کو فوجی انخلا، عمل میں لانے کے موضوع پر بھی بحث ہوئی۔ یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ہی امریکا نے طالبان کے ساتھ یکم مئی تک اپنے فوجی واپس بلا لینے پر اتفاق کیا تھا اور اس سلسلے میں باقاعدہ ایک معاہدے پر قطری دارالحکومت دوحہ میں دستخط ہوئے تھے۔
بُدھ کو طالبان کی طرف سے سامنے آنے والے بیان کو امریکا کے لیے ایک پیغام سمجھا جا رہا ہے۔ جس میں طالبان ایک بار پھر امریکا کو باور کرا رہے ہیں کہ دوحہ معاہدے کی تمام شقوں پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے، خاص طور سے افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے طے شدہ وقت کی مکمل پابندی کی جانا چاہیے۔
قبل ازیں طالبان نے اعلان کیا تھا کہ اگر امریکا نے اپنی افواج کے انخلاء کی طے شدہ تاریخ یکم مئی کی خلاف ورزی کی تو وہ اس کے خلاف تمام ممکنہ اقدامات کریں گے۔ اس دھمکی آمیز بیان کے پس منظر میں طالبان کی طرف سے بین الاقوامی فوجی دستوں اور دیگر غیر ملکی اداروں پر ممکنہ نئے حملوں کے خوف کے سبب بہت سے غیر ملکی پہلی مئی سے پہلے افغانستان سے چلے گئے ہیں۔
گزشتہ سال ستمبر سے خلیجی امارات قطر میں کابل حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرت جاری ہیں تاہم کابل میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین ہنوز غیر یقینی صورتحال پائی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں ان دونوں کے مابین مذاکرات کا سلسلہ رک گیا تھا۔ کئی دہائیوں سے جنگ اور عدم استحکام سے دو چار اس ملک میں تشدد بدستور جاری ہے۔