کراچی (جیوڈیسک) لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیز بلوچ نے دوران تفتیش یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ اس نے مبینہ طور پر نادرا کے ایک افسر کی ملی بھگت سے سیکڑوں غیرملکیوں کے شناختی کارڈ بنوائے جس سے اسے اور نادرا کے افسر و دیگر کو کروڑوں روپے کی آمدنی ہوئی،نادرا کے افسر کی مدد سے موجودہ خاتون رکن صوبائی اسمبلی کی عمرمیں بھی تبدیلی کی گئی تاکہ وہ سال 2013 کے عام انتخابات میں بھی حصہ لے سکیں۔
ذرائع کے مطابق لیاری گینگ وار اورکالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سرغنہ عذیر بلوچ نے دوران تفتیش اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ اس نے لیاری میں ملا فاضل ہال کے قریب واقع نادرا آفس کے سربراہ ملک طارق کی مبینہ ملی بھگت سے سیکڑوں غیر ملکیوں کے شناختی کارڈ بنوائے ، عذیر بلوچ نے انکشاف کیا کہ ایک غیر ملکی کا شناختی کارڈ بنانے کے 40 ہزار روپے لیے جاتے تھے جس میں سے 20 ہزار روپے مبینہ طور پر ملک طارق کو دیے جاتے تھے وہ اس میں سے کچھ حصہ اپنے ماتحت اسٹاف کو بھی دیتا تھا جبکہ بقیہ 20 ہزار روپے میں سے 12 ہزار روپے عزیر بلوچ ، 8 ہزار روپے گینگ وار کے دیگر کمانڈوزمیں تقسیم کیے جاتے تھے ، ایک دن میں 10 سے زائد شناختی کارڈ نہیں بنائے جاتے تھے۔
عذیر بلوچ نے انکشاف کیا کہ شناختی کارڈ بنانے کے لیے ایرانی اور بنگالیوں کے علاوہ بلوچستان سے کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی طرف سے بھیجے گئے تارکین وطن ہوتے تھے ، عذیر بلوچ نے انکشاف کیا کہ اس کے نور محمد عرف بابا لاڈلا کے درمیان اختلافات ہوگئے تولیاری 2 حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا جس کے باعث ملا فاضل ہال والاعلاقہ بابا لاڈلا کے زیر اثر ہوگیا تھا جس کے بعد تارکین وطن کے شناختی کارڈ بنانے کا کام بابا لاڈلا نے شروع کردیا تھا، بابا لاڈلا کا دست راست ماما امید علی اور رکن قومی اسمبلی کا کوآرڈینیٹر و سابقہ کونسلر نوید بلوچ مبینہ طور پر غیر ملکیوں سے رقم لے کر شناختی کارڈ بنانے کے لیے ملک طارق کو دیتے تھے ۔
عذیر بلوچ نے انکشاف کیا کہ جس طرح وہ فی شناختی کارڈ 12 ہزار روپے لیتا تھا اسی طرح بابا لاڈلا بھی 12 ہزار روپے فی شناختی کارڈ خود رکھتا تھا جبکہ باقی رقم اسی طرح تقسیم کر دی جاتے تھی جیسے اس کے دور میں تقسیم ہوتی تھی تاہم 8 ہزار روپے میں سے آدھا حصہ مبینہ طور پر رکن قومی اسمبلی کو بھی جاتا تھا ، عذیر بلوچ نے انکشاف کیا کہ سال 2013 کے عام انتخابات کے لیے اس نے پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کو لیاری سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ کے لیے ثانیہ نازکابھی نام دیا تھا تاہم اس وقت ثانیہ نازکی عمراتنی نہیں تھی کہ وہ انتخابات میں حصہ لے سکے جس پراس نے نادرا کے سربراہ کواس وقت کے پیپلزپارٹی کے ایک وفاقی وزیر سے فون کرایا جس کے بعد ثانیہ ناز کے شناختی کارڈ میں اس کی عمر بڑھا کرنیا شناختی کارڈ بنوا دیاگیا جس سے وہ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے اہل ہوگئی تھی ۔