تحریر: روہیل اکبر آجکل صحافیوں پر بڑے بڑے کرپشن کے الزمات لگائے جا رہے ہیں ویسے تو پاکستان میں کوئی بھی ادارہ کرپشن جیسے گند سے پاک نہیں ہے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو خوف خدا اپنے اندر رکھتے ہیں یا انکے اندر انکا ضمیر زندہ ہے جو انہیں لوٹ مار نہیں کرنے دیتا ورنہ تو یہاں صحافت کا شعبہ اور اس سے وابستہ افراد ہی کرپٹ نہیں ہیں بلکہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اب تو کرپشن سے صرف وہی لوگ پاک صاف نظر آتے ہیں جنہوں نے جی بھر کر لوٹ مار کرکے اتنا مال جمع کر لیا ہوکہ انہیں روپے پیسے کی گنتی کا حساب نہ رہے اور بے دریغ جائیدادیں بنا کر اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی تابناک بنا لیا ہوباقی تو سب جہاں جس کا داؤ لگ جاتا ہے۔
معافی کا لفظ پھر اسکی لغت سے مٹ جاتا ہے جس طرح دوسرے شعبوں میں پسند و ناپسند اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے عہدوں کی بندر بانٹ کی جاتی ہے شعبہ صحافت میں بھی اسی طرح کام لیا جاتا ہے اکثر صحافی دوست ایسے بھی ہیں جو محنت ،ایمانداری اور اپنے پیشے سے محبت کرنے والے ہیں مگر انکونہ کوئی ادارہ قبول کرتا ہے اور نہ کسی تنظیم نے انہیں اپنے ہاں گھسنے دیا ہے کیونکہ یہاں پر بھی ایسے افراد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو کماؤ پوت ہوں کرپشن، لوٹ مار، بارگینگ اور بلیک میلنگ میں اپنا ثانی نہ رکھتے ہوں لیکن جو مک مکا کی صحافت نہیں کرتے یا انکے اندر اس بات کا حوصلہ نہیں ہے وہ کل بھی کسمپرسی کی زندگی گذار رہے تھے اور آج بھی اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کا گلہ گھوٹنے پر مجبور ہیں وہ کل بھی زندگی کی رنگینیوں سے ناآشنا تھے اور وہ آج بھی دال روٹی کے چکر میں کولہو کے بیل بنے ہوئے ہیں۔
رہی بات خبروں کی وہ تو خود اخبارات کا پیچھا کررہی ہوتی ہیں مگر اداروں کے مالکان کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور انکے ورکروں کے مفادات انکے مالکان سے جڑے ہوتے ہیں اگر مالکان کے پاس پیسے ہونگے تو ہی ادارے چلیں گے اور قلم کے مزدوروں کو بروقت انکا معاوضہ ملے گا مگر یہاں پر تو حکومتوں انکے حواریوں اور بڑے بڑے سرمایہ داروں نے پورے پورے اداروں کواپنا غلام بنا رکھا ہے اشتہاروں کی بنیاد پر خبروں کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور اشتہار دینے والے تمام سرکاری اداروں سمیت بڑے بڑے ٹرائیکون اپنے اپنے مفادات سامنے رکھتے ہیں ہمارے ملک کے ایسے اخبارات بھی ہیں جو اس وقت نظر آتے ہیں جب انہیں کسی سرکاری ادارے سے کوئی اشتہار مل جاتا ہے ویسے وہ بھی نظر نہیں آتے کچھ ایسے ہیں جنہیں اشتہارات کی بھر مار سے اپنی آمدن کا اندازہ ہی نہیں ہوتا اور کچھ ایسے بھی ہیں جو چھپتے تو ضرور ہیں مگر چبھتے بہت زیادہ ہیں اس لیے انہیں اشتہارات سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ وہ مالک اپنی جیب خالی کرکے اخبار بند کردے یا پھر کوئی نہ کوئی ڈیل کر لے ہمارے ملک میں اشتہارات کے حوالے سے کوئی قانون، پالیسی اورہی نہ کوئی ضابطہ ہے جس کا جتنا دباؤ ہو گا وہ اتنا ہی مالی فائدہ اٹھا لے گا۔
Pakistan
ایسا صرف شعبہ صحافت میں ہی نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں جنگل کا قانون ہے یہ میرے الفاظ نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے ایک بڑے صوبہ پنجاب کے ذمہ دار گورنر چوہدری سرور کے ہیں جنہوں نے جمعرات کے روز ہندوں کمیونٹی کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران یہ الفاظ ادا کیے اگر دیکھا جائے تو واقعی پاکستان میں جنگل کا ہی قانون چل رہا ہے اسی لیے تو انتخابی نشان شیر والے حکومت کررہے ہیں اگر پاکستان میں جنگل کے بادشاہ شیر کو ووٹ دیکر اپنے اوپر سوار کرلیا جائے تو پھروہ پاکستان میں بھی بادشاہت ہی قائم کریگا کس کی مجال ہوگی کہ وہ شیر کے خلاف کوئی بات کرسکے کیونکہ شیر کے قریبی وزیروں جن میں لومڑی جیسامکار جانورشیر جیسے بادشاہ کا کار خاص ہو تو وہاں انصاف کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے جو مکاریوں اورشکار کو گھیر کر لانے میں میں لومڑی سے آگے نکلے گا اسے ہی بادشاہ اپنے قریب کریگا جنگل کا یہ قانون پورے ملک میں رائج ہے کیونکہ یہاں انصاف، روزگار، صحت، صفائی، تعلیم، جیسی بنیادی سہولیات کے لیے بھی کسی کی سفارش کی ضرورت ہو گی یا اسے اپنا کام نکلوانے کے لیے رشوت کی ضرورت پڑے گی اور انہی ضروریات نے ہمیں جنگل کا باسی بنا دیا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو بطور قوم ہم بھی اب شارٹ کٹ کے چکر میں رات و رات امیر ہونا چاہتے ہیں اور جو نہیں ہونا چاہتے وہ دو وقت کی روٹی اور اپنی بیماری کے علاج سے بھی قاصر ہوچکے ہیں ایسے لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے والے بھی آج ہم میں موجود ہیں مگر وہ اتنی کم تعداد میں ہیں کہ انکا ہونا کسی کو نظر ہی نہیں آتا ایسے لوگ خلق خدا کی خدمت میں دن رات مصروف ہیں بیشک وہ کم تعداد میں ہیں لیکن وہ جہاں ہیں وہاں عوام کے دکھوں کا مداوا ضرور کررہے ہیں ان میں ایسا ہی ایک ادارہ مغل پورہ لاہور میں الا احسان کے نام سے مصروف عمل ہے جسکے روح رواں جناب الحاج ثناء اللہ خان صاحب ہیں جنہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ وہ کام کردکھایا جو حکومت برسوں میں نہیں کرسکی حکومت کے سرکاری ادارے بلخصوص ہسپتال وہ سفید ہاتھی ہیں جو انہوں نے صرف اپنے لیے پال رکھے جہاں شیر ،لومڑی ،چمگاڈریں ،جونکیں اور ہمارا خون چوسنے والی بلائیں جنہوں نے پاکستان کو اچھے خاصے ملک سے جنگل بنا رکھا ہے اپنا علاج کرواتی ہیں رہی بات اس جنگل کے باسیوں کیڑے مکوڑوں کی انکی خدمت کے لیے ہمارے پاس جناب عبدالستار ایدھی صاحب، جناب ڈاکٹر محمد رمضان چھیپا صاحب، جناب ثناء اللہ خان صاحب اور جناب میاں انجم فارانی صاحب سمیت بہت سی خاموش، گمنام اورہمدرد شخصیات موجود ہیں جو اپنی عزت نفس کو بالائے طاق رکھ کر ملک کے غریبوں کے لیے چندہ مانگ کرخدمت خلق میں مصروف ہیں اللہ تعالی ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے (آمین)۔