تحریر: محمد ریاض بخش پہلے زمانے میں مطلب پرانے زمانے میں ایک بہت بڑا جنگل تھا۔ ویسے تو ہم بھی جنگل میں ہی رہے رہیے ہے۔جو آجکل کے حالت چل رہے ہے۔ خیر میں پرانے جنگل کی بات کر رہا ہوں۔ وہ جنگل شیراں والے جنگل کے نام سے مشہور تھا۔ کیونکہ اس جنگل میں شیر بہت ذیادہ رہتے تھے۔ کرڑوں کے حساب میں یہاں جانور رہتے تھے ۔ سب بہت خوش تھے ۔یہ دنیا کا وعدہ جنگل تھا جہاں چار موسم آتے تھے ۔اﷲنے اس جنگل کو ہر ایک نعمت سے نوازہ ہوا تھا ۔ارو جانورو ںمیں سلوک اتنا تھا کہ شیر ارو گیڈر ایک ہی تالاب سے پانی پیتے تھے ۔کسی کو کوئی پریشانی نہیں تھی سب خوشی خوشی اس جنگل میں رہتے تھے۔ حالت بدلے مگر اس جنگل کا رہن سہن نا بدلا۔جو جنگل کے وزیز ارو بادشاہ تھے وہ وقت کے ساتھ بوڑھے ہو رہے تھے۔
Lion
انہوں نے ایک دن جنگل میں رہنے والے سارے جانورو کو اکٹھا کیا ارو کہا کہ ہم تو بوڑھے ہو رہے ہے ۔اس لیے ہم چاہتے ہے کہ آپ لوگ ہمارے جیتے جی کوئی نیا بادشاہ منتخب کر لے جو اس جنگل کی بادشہاہت سمبھال سکے خیر ہر طرف امن ہی تھا ۔جانورو ںننے ایک شیر کو اپنا بادشاہ چنا لیا۔ کچھ دن اچھے گزرے اس کے بعد جنگل کے حالت تبدیل ہو گیے۔جانور آپس میں لڑنے لگ گیے ۔جانورو نے جو بادشاہ چنا تھا اصل میں وہ شیر کے روپ میں گیڈر تھا اس نے بس شیر کی کھال پہنی ہوئی تھی ۔جنگل میں فساد برپا ہو گیا۔ارو آخرکار جنگل کہی حصوں میں تقسیم ہو گیا۔شیراں والے جنگل میں دوبار ایک لیڈر کو منتخب کیا گیا۔کچھ عرصہ گزرا شیراں والا جنگل پھر سے آباد ہو گیا۔مگر اس کچھ عرصے میں دوسرے جنگلوں میں رہنے والے جانور شیراں والے جنگل میں آ کر بس گیے۔لڑائی جھگڑا فسادات شروع ہو گیے۔ہر کوئی بادشاہ بننا چاہتا تھا۔
جو اصل شیر تھے وہ بچارے اپنی شرافت کی وجہ سے خاموش ہو گیے۔جانورو ںنے ایک دوسرے کو بادشہاہت کے چکر میں قتل کرنا شروع کر دیا۔جو دوسرے جنگلوں میں سے جانورو آے تھے ان میںاصل شیر کم تھے ذیادہ طرح ان میں گیڈر تھے جنہوں نے بس شیر کی کھال پہنی ہو ئی تھی۔جانورو میں پاڑٹی بازی بن گی۔جنگل کا نظام درہم برہم ہو گیا۔وہ جنگل ویران سا لگنے لگ گیا جہاں کبھی سناٹا نہیں ہوتا تھا۔خیروقت بدلتا گیاجو جانور ذیادہ مظبوط تھے مثلا شیر ریچھ ہاتھی وغیرہ اپنی اپنی ایک پاڑٹی بنا لی چھوٹے جانورو کو ان کی پاڑٹی میں حصہ لینا پڑا کیا کرتے بچارے ا ن کے پاس کوئی اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔جو تھوڑے بہت بچے تھے جانور انہوں بچاروں نے کیا کرنا تھا ۔بس اپنے آنے والے وقت کے بارے میں سوچتے ارو پریشان ہوتے رہیتے۔beacuse they called mango animal .عام جانور جن کو کھانے کے وندے پڑ گیے۔ہر چیز پر تو بڑے جانورو کا قبظہ تھا۔
Elephant
جتنی بھی پاڑٹی بنی سب نے اپنے اپنے سال نمٹانے شروع کر دیے۔ مثلا 5 سال شیر کے 5 سال ہاتھی کے حکومت کریے گا۔ سب نے آپس میں ٹایم مقررہ کر لیاسب اپنی اپنی باری کا انتظار کرنے لگ گیے۔مگر نا ہی کسی نے جنگل یا جنگل میں رہنے والوں کے بارے سوچا۔نظام چل رہا ہے ارو چلتا رہے گا جیسے آجکل ہمارے ملک کا چل رہا ہے۔ یہ جو ہمارے لیڈربیٹھے ہے۔ یہ سب اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہے۔ میں سب سے پہلے سب سے معذرت کرتا ہو ں اگر میرا کوئی لفظ آپ لوگوں کو برا لگے تو۔وہ جنگل آجکل ہمارااپنا پیارا ملک پاکستان بنا ہوا ہے۔ کتنا پیارا ملک ہے ہمارا یار۔ہر موسم ہے ہر پھل یہاں ہوتا ہے ہررنگ ہے یہاں پرعام زبان میںکہے تو ایک جنت ہے ہمارا ملک مگر چندگیڈروں کی وجہ سے اس کو نظرلگ گئی ہے۔
انسان کو جانور کہنا غلط بات ہے میں جانتا ہوں کیونکہ اﷲنے انسان کو اشرف لمخلوقت کا درجہ دیا ہے مطلب تمام مخلوق سے افضل ۔اسلیے میں جانور تو نہیں کہا رہا مگر ہمارے ساتھ جانوروں جیساہی سلوک ہو رہا ہے۔ہمارے سیاست دان نسل درنسل چل رہے ہے ارو ہمارے ساتھ جانوروں جیسا ہی سلوک کر رہے ہے جہاں سے میںنے پڑھنا شروع کیا مطلب سیاست۔پہلے نواز شیریف کو پروزمشرف نے مات دی۔ارو end تک مشرف صاحب کی یہی خوہش تھی کہ وہ اپنے آپ کو صدر کے روپ میں دیکھے۔خیر اس کے بعد جناب آصف علی زرداری صاحب آے انہوں نے اپنے 5 سال پورے کیے۔اب آہ گیے میاں محمدنوازشیریف ان کے پیچھے ہی عمران خان صاحب تیار بیٹھے ہے۔
یہ لوگ تو اپنی اپنی باری نمٹاکر جا رہے ہے اپنا اپنا کوٹا سب پورا کررہے ہے۔مگر ہمارا کیا عوام کا کیا اس ملک کا کیا کون سوچے گا ؟کون چلاے گا ہمارا نظام کون دیکھے گا ہمارے آنسو؟ووٹ ایک امانت ہے ہم پہ قرض ہے جس کو ہمیں ہر حال میں ادا کرنا ہے۔ووٹ کی اہیمت مجھے اس بار پتا چلی میں نے اپنی آنکھوں سے اس بار دیکھا ہے کیسے بوڑھی عورتیں جن سے سہی طرح کھڑا نہیں ہوا جاتا تھا مگر وہ گنٹھوں لاین میں لگی رہی بس ووٹ ڈالنے کیلیے۔ان کی عمر گزا گی ہے اپنے آخری کچھ سال جی رہی ہے مگر پھر بھی بدلاو چاہتی ہے۔آسان لفظوں میں نے آپ کو بتایا ہے اب اتنے تو ہم پاگل نہیںکہ بات نا سمجھے میں نہیں کہتا کہ اس کو نہیں اس کو چنو۔مگر جس کو بھی چنو وہ شیر کے روپ میں گیڈر نا ہو بس۔۔۔