تحریر : سجاد گل اس ملک میں کون سا نظام رائج ہے،نظامِ خلافت ،نظامِ جمہوریت ،بادشاہت کا نظام،یا پھر جنگل راج؟اس ملک میں چند خاندانوں کا چلنے والا راج نظام ِخلافت کے پائوں کی خا ک کے برابر بھی نہیں ہو سکتا،لامتناہی خامیوں کے اس اسیر راج میں نہ ہی خلافت جیسی کو ئی خوبی موجود ہے نہ خلافت کا رنگ،اگر اس نظام کو جمہوریت کا نام دیا جائے تو میرے خیال میں جمہوریت کی اس سے بڑی توہین ممکن نہیں، اس ٹوٹے پھوٹے ظالمانہ نظام کو بادشاہت سے جوڑ دیا جائے تو یہ نظام ِبادشاہت کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہوگا،باقی رہ گیا جنگل راج تو اس نظام کو جنگل راج کا نام دیا جائے توکم از کم مجھے اس میں زرہ بھر پس و پیش نہیں۔ اس دل کے دریدہ دامن میں ،دیکھو تو سہی سوچو تو سہی جس جھولی میںسوچھید ہوئے،اس جھولی کا پھیلانا کیا
جس نظام سے ریڑیوں والے پھل فروش نہ سنبھالے جائیں یقینا وہ نظام نہیں بلکہ کسی نظام کے نام پر کھلا اور سنگین مذاق ہے، آپ نے یقینا یہ بات نوٹ کی ہو گی کہ پورا رمضان کا مہینہ انتظامیہ پھل فروشوں کوریٹ لسٹ کے مطابق پھل بیچنے پر آمادہ نہ کر سکی،خیر میراآج کا موضوع رمضان کی مہنگائی یا پھل فروش نہیں یہ بات بطورِ مثال بیچ میں آگئی،میرااصل موضوع اس ملک کا نظام ہے، ملک کے کرتا دھرتاصاحبان کے دعوے کے مطابق اس ملک میں جمہوری نظام نافذ ہے،اسی لئے کہا جاتا ہے” اسلامی جمہوریہ ِ پاکستان ”جب ہم ان کی زبانی سنتے ہیں کہ جمہوریت کو بچانا ہے،جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے،جمہوریت ہماری اولین ترجیح ہے۔
عوام کی نظر میںاِن آوازوں کی حثیت خالی گھڑے کی آواز سے زیادہ کچھ نہیں، گلہ یہ ہے کیا جمہوریت کو بچانا ہیں خواہ ملک کا بیڑہ غرق ہوتا رہے،جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے بھلے ملک کمزور سے کمزور تر ہوتا رہے،جمہوریت کے مفادات اولین ترجیح پر اور ملکی مفادات پسِ پشت، کیا عجب ہے داستاں تری شرم بھی نہیں آتی ان بے معنی و بے مقصد دعوئوں کے ڈھول تھاپتے ہوئے،جمہوریت کے ان نغمہ سراہوں کی نظر میں انہیںاپنی من مانی اور ملک لوٹنے کی کھلی چھٹی عنایت فرما دی جائے تو یہی اصل اور حقیقی جمہوریت ہے،اگر اس میں کہیں روک ٹوک ،احتجاج و تنقید کا عنصر نمایا ہوتا نظر آئے تو ان کی یہ جمہوریت خطرے میں پڑجاتی ہے۔
Law
اگرآئین و قانون کی بالا دستی کی بات کی جائے ،عدل و انصاف کا تقاضا کیا جائے یا عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی پر کچھ گفت و شنید اور قلم وقرطاس کی جائے تو جمہویت پر خطرات کی کالی گھٹائیں چھا جاتی ہیں،درحقیقت عرصہ ستر سال سے عوام کو جمہوریت کے نام پربیوقوف بنایا جارہا ہے، اگر جمہوریت عوام کے حقوق کو پامال کرنے کا نام ہے،عوام کو ذلت و رسوائی سے دوچار کرنے کا نام ہے،تو نہیں چاہئے ہمیں یہ بوسیدہ اور ناکام نظامِ جمہوریت،اگر جمہوریت غریب اور امیر کے درمیان عدل وانصاف کی تقسیم کا نام ہے تو اعلانِ برات ہے ہر اس شخص کا اس جمہوریت سے جس کے سر میں ذرا بھی سودا موجود ہے،لگے ہاتھوں ایک مثال اور سنتے جایئے، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا بیٹا اغواہ ہوا تو ملک میں اک وویلا مچ گیا،وزیرِداخلہ کو الگ بیان دینا پڑا اور سائیں سرکار کو الگ پرس کانفرس کرنی پڑی،سٹیبلشمنٹ سر جوڑ کر بیٹھ گئی ،پارلیمنٹ میں بھی بھونچال کی سی کفیت دیکھی گئی۔
دوسری جانب چچا نورا کا بیٹا اغواہ ہوا نہ یہ منظر وسماں دیکھنے کو ملے اور نہ چچا نورا کے خاندان کے علاوہ کسی کو کانوں کان خبرہوئی، وہ ایف آئی آر درج کرانے تھانے گیا تو مانندجوئے شیر حالات سے گزر نے کے بعداسے ایف آئی آر کی سعادت نصیب ہوئی،اور اسکے بعد کسی ادارے یا محکمے کے کانوں پر جوء تک نہ رینگی،چچا نورا سے پچاس لاکھ روپے بطور تاوان طلب کئے گے ،”سولہ ہزار ماہانہ تنخواہ لینے والا شخص” اور” پچاس لاکھ روپے ” تاوان ادا نہ کرنے کے باعث چچا نورا کو اپنے بیٹے کی لاش دیکھنی پڑی۔ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
مجبور ولاچار آدمی کسی تنگی کے باعث بکری کا بچہ چوری کر لیتا ہے تو اسے یہ ادارے اور نظام تین سال کی قید اور جرمانے کی سزا سنا دیتے ہیں ،مگر کوئی شخص ملکی دولت لوٹ کر منی لانڈرنگ کرتا پھرے اسکے لئے کمیشن بنانے شروع کر دیئے جاتے ہیں،ٹی ،آر، او کے جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں،ملک کی دولت لوٹنے والاایک مجرم اپنی صفائی یوں بیان کرتا ہے کہ چور میںہی نہیں فلاں بن فلاں بھی چور ہے،عجیب تماشا لگا رکھا ہے ان حکمرانوں نے،پوری قوم کو اُلو بنایا ہوا ہے۔
Political Parties
ہماری ناقص معلومات کے مطابق یہ جمہوریت نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر عوام کو چونا لگانے کا ایک مفید ڈھنگ ہے جو اس ملک میں کچھ جاگیرداروں،وڈیروں اور بزنس مینز نے رچایا ہوا ہے، پاکستان میں رائج نظام جمہوریت ایک دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیںہے دراصل یہ دو تین خاندانوں کی بادشاہت ہے،اسکی ایک حالیہ مثال یہ دی جا رہی ہے کہ بغیر بالوں والے صاحب خود تو برطانیہ میں عید کی شاپنگ کر رہے ہیں،اور یہاں انکی صاحبزادی وزیراعظم ہائوس میں بیٹھ کر احکامات جاری و ساری فرما رہی ہیں، جبکہ حقیقی جمہوریت میں کوئی شخص اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وزیراعظم کی غیر موجودگی میں انکے ہی خاندان کا کوئی فرد حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھال لے۔
آئین ِپاکستان کی روح سے وزیراعظم کی غیر موجودگی میں سپیکرقومی اسمبلی یہ فرائض سر انجام دے سکتا ہے”ہاں یہاں مسلم لیگ ن والے چچا نورا والا یہ اعتراض ضرور اٹھا سکتے ہیں کہ آئین میں یہ کہا لکھا ہے کہ نواز شریف کی غیر موجودگی میں مریم نواز انکی جگہ نہیں لے سکتی”ان حکمرانوں کی ان من مانیوں کو بادشاہت کا نام دینا بادشاہت کے ساتھ سرا سر زیادتی ہوگا۔
اگر اس وقت بہادر شاہ ظفر زندہ ہوتا تو وہ بھی کب کا دھرنے کا اعلان کر دیتا کہ یہ حکمران اپنی من مانیوں اور ظالمانہ نظام کے تحت بادشاہت کو بدنام کر رہے ہیں،مگر کوئی بھی صاحب عقل جو بادشاہت کی تاریخ سے واقف ہے وہ اس نظام کو بادشاہت نہیں کہے گا،یہ نظام تو ظالمانہ وجابرانہ ہے،یہ وہ نظام ہے جسکی لاٹھی اسکی بھینس، یعنی جنگل راج۔