جال

Forgiveness

Forgiveness

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میرے سامنے کینسر کا لا علاج مریض تھا جس کی حالت موت سے بھی بدتر ہو گئی تھی بلکہ زندگی ایک سزا بن گئی تھی جو بیماری کی گرفت شدت اور لا علاج ہونے کی وجہ سے عبرت کا اشتہار بن گیا تھا میں ماضی حال کے درمیان گھڑیال کے پنڈولم کی طرح جھول رہا تھا کبھی ماضی کا خوبصورت صحت مند دولت مند جوان جو گفتگو کا مسٹر تھا اپنی ذہانت اور میٹھی گفتگو سے مد مقابل کو اپنا مستقل قیدی بنا لیتا تھا جس کی گفتگو کا شہر ہ ،حلقہ یاراں میں مشہور تھا لیکن گردش ایام اور وقت کی آندھی اُس سے طاقت جوانی حسن دولت اور فرعونی مزاج چھین کر لے گئی تھی انسان طاقت اقتدار جوانی دولت کے نشے میں زندہ انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح پائوں تلے روندتا چلا جاتا ہے لیکن پھر وقت کی چکی اُس کو پیس کر خاک میں بدل دیتی ہے۔

انسان کے پاس جب بے پناہ دولت آجاتی ہے اوپر سے قدرت نے جوانی اور خوبصورتی کی بہار بھی عطا کر دی ہو تو پھر رگوں میں دوڑتے گرم جو شیلے خون کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ کامیابی طاقت دولت جوانی کا یہ سورج ہمیشہ اِس پر اِسی طرح چمکتا دمکتا رہے گا وہ ہمیشہ عروج کا موسم ہی دیکھے گا زوال بڑھاپا غربت ناکامی بیماری سے کبھی واسطہ نہیں پڑے گا وہ خدا سے یہ ساری نعمتیں ہمیشہ کے لیے مانگ کر لایا ہے اِس کا واسطہ کبھی بھی زوال سے نہیں پڑنا اِس پر ہمیشہ موسم بہار کے رنگوں کی برسات اِسی طرح جوبن پر رہنی ہے اُس وقت انسان یہ بھول جاتا ہے کہ جو دن نکلتا ہے اُس کا سورج ایک دن غروب بھی ہو تا ہے رگوں میں دوڑتا خون ٹھنڈا بھی پڑتا ہے جس جسم پر جوانی میں انسان فخر کرتا ہے۔

جب بڑھاپے کی امر بیل رگوں کو چاٹنا شروع کر تی ہے جسم بیماریوں کی آما جگاہ بنتی ہے تو پتہ ہی نہیں چلتا دھوپ سے چھائوں کے بعد اندھیرا چھا جاتا ہے پھر پچھتاوے ندامت کے علاوہ کچھ نہیں بچتا میرے سامنے پڑا کینسر کا مریض بھی عروج سے زوال ‘جوانی سے بڑھاپے اور قدرت کی گرفت میں داخل ہو کر نشان عبرت بن چکا تھا میرے اور اِس کے درمیان سالوں پہلے جو واقعہ رونماہوا تھا جس کی وجہ سے میرا اِس سے رابطہ ٹوٹ گیا تھا وہ اِس طرح تھا کہ جب یہ سالوں پہلے کسی جوان خوبصورت لڑکی کو لے کر میرے پاس آیا تھا تو میں نے اِس کی چالاکی عیاری عیش پرستی کو بھانپتے ہوئے ساتھ آئی لڑکی سے موقع پاکر کہا تھا دیکھو بیٹی تم کسی نیک خاندان سے لگتی ہو اِس وقت اِس کی باتوں اور محبت میں اندھی اور غرق ہو میری نصیحت ہے کہ اپنی آنکھیں کھولو اپنی جوانی اور وقت برباد نہ کرو اِس سے جلدی شادی کر لو اگر یہ انکار کرے تو اِس سے جان چھڑا کر اپنے والدین کی مرضی سے اچھی جگہ شادی کر لو۔

میری بات سن کر لڑکی بے یقینی سے بولی سر آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ میرے ساتھ بے وفائی کریں گے یہ تو مجھ سے بہت زیادہ محبت بلکہ عشق کر تے ہیں یہ تو میرے بنا سانس بھی نہیں لیتے لڑکی مکمل طور پر اِس کے عشق میں گرفتار تھی لیکن پھر بھی میرے بہت سمجھانے پر اتنا تیار ہوئی کہ میں غیر جانبدار ہو کر اِس کا مشاہدہ اور شادی پر اصرار کروں گی پھر جب یہ واپس چلے گئے تو چند ماہ بعد ہی اُس لڑکی کا مجھے فون آیا سر آپ ٹھیک کہہ رہے تھے میں اندھی محبت سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آکر دیکھ رہی ہوں تو مجھے بہت ساری باتیں اور عیاشی کی داستانیں مل رہی ہیں پھر چند دن بعد لڑکی کا فون آیا سر میں نے اِس کے ذاتی ملازم کو لالچ اور قسم دے کر پوچھا تو اُس نے بتایا کہ یہ تو سالوں سے مختلف لڑکیوں کو اپنے دام محبت میں گرفتار کر تا ہے پھر چند ماہ ان سے کھیل کر چھوڑ کر نئی لڑکی کو اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے طریقہ واردات بہت خوفناک ہے مختلف دفتروں میں جا کر مختلف خوبصورت لڑکیوں کو دیکھتا ہے یا پھر اخبار میں نوکری کا اشتہار دیتا ہے اچھی تنخواہ کا لالچ دے کر اُس کو اپنی سیکرٹری لگاتا ہے پھر اُس پر دولت کی برسات کر تا ہے اُس کو اپنی محبت اور شادی کے جال میں پھنساتا ہے اگر کوئی لڑکی اِس طرح قابو نہ آئے تو اُس کو بہت بڑی رقم ادھار دے کر پھر واپسی کا تقاضہ کرتا ہے کسی پر چوری کا الزام لگا کر اُس کو تھانے گرفتاری کا خوف دلا کر اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے یہ بہت بڑا شکاری ہے جو اپنی باتوں دولت تعلقات چالاکی سے مختلف لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا کر اپنی جنسی ہوس پوری کرتا ہے۔

اپنے ٹارگٹ یعنی لڑکی کو اپنے جال میں پھنسا نے کے لیے یہ کچھ بھی کر سکتا ہے جان سے مار دینے کی دھمکی یا میں تمہارے عشق میں نہ ملی تو خو دکشی کر لوں گا یہ کچھ بھی کر سکتا ہے لڑکی بیچاری جیسے جیسے اِس کی کھوج کرتی گئی اِس کا شیطانی چہرہ اور داستانیں سامنے آتی گئیں اب جب لڑکی اِس کا گھنائونا چہرہ دیکھ گئی تو اُس نے اِس سے شادی کا اصرار کیا پہلے تو ٹال مٹول کرتا رہا جب لڑکی نے زیادہ اصرار کیا تو لڑائی جھگڑا کر کے چھوڑ دیا اُس وقت لڑکی نے مجھے فون کیا کہ سر میری عزت سے کھیل کر اب یہ مجھے اپنی زندگی سے نکال رہا ہے تو میں نے اُس کو فون کیا کہ یار تم تو اِس سے شادی کر نا چاہتے تھے اب اُس کو چھوڑ کیوں رہے ہو تو اِس نے مجھے کہا سر آپ نیک انسان ہیں میں آپ کی قدر کر تا ہوں آپ میرے معاملے میں دخل اندازی نہ کریں یہ میرا ذاتی مسئلہ ہے اِس طرح میں لڑکیوں سے شادی کر نا شروع کردوں تو آدھے شہر کی لڑکیاں میری بیویاں ہو نگیں سر آپ ہمارے معاملے سے دور رہیں یہ میری اِس سے سالوں پہلے آخری بات چیت تھی اُس کے بعد آج یہ سالوں بعد میرے سامنے آیا تھوڑی دیر بعد یہ چلا گیا تو میں نے اِس کاخط کھول کر پڑھا جس میں لکھا تھا سر آخری بار آپ نے مجھے بہت سمجھایا تھا کہ میں تو بہ کر لوں لڑکیوں کی زندگیاں برباد نہ کروں تو میں نے کہا تھا یہ لڑکی میرے اوپر الزام لگاتی ہے میں تو صاف ستھرے کردار کا مالک ہوں سر میں طاقت جوانی دولت میں غرق تھا میں جال بنا کر لڑکیوں کو پھانستا تھا اب قدرت نے جال بنا کر مجھے پھنسا لیا اب میں نشان عبرت ہوں سر میں اقرار کرتا ہوں میں گناہ گار تھا لڑکیوں کی زندگیاں برباد کیں سر میں آپ سے اور خدا سے معافی کا طلب گار ہوں مجھے معاف کر دیجئیے گا دعا کریں مجھے جلدی موت آجائے میری اِس اذیت سے جان چھوٹ جائے اُس نے تو معافی مانگ لی لیکن میں حیران تھا کہ جوانی طاقت دولت میں جو لوگ جال بنا کر لوگوں کو پھانستے ہیں وقت گزرنے کے بعد قدرت کے جال میں پھنس کر نشان عبرت بن جاتے ہیں۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org